Wednesday 30 April 2014

ایک ہی رنگ رچاؤں سب انسانوں میں

ایک ہی رنگ رچاؤں سب انسانوں میں
دوڑ رہا ہوں دُنیا کی شریانوں میں
نفرت کی تائید نہیں میں کر سکتا
نام مِرا بھی لکھ لو نافرمانوں میں
باہر تو ہر سُو ہے راج درندوں کا
امن کا ہے ماحول فقط زندانوں میں
پودا پودا پال کے وقت نہ ضائع کر
کاغذ کے کچھ پُھول سجا گُلدانوں میں
اس بیکار کے جینے سے بیزار ہوں میں
شامل کر لو مجھ کو بھی پروانوں میں
یارو! میں تو یوں بھی گالی کھا لوں گا
چھوڑو بھی کیا رکھا ہے یارانوں میں
انسانوں کا خون ہی تم کو پینا ہے
کھوپڑیوں میں پی لو، یا پیمانوں میں
رات کی چُپ میں دل کی دھڑکن تیز کرو
کوئی تو آواز پڑے گی کانوں میں
پہلے ہی وہ گورا ہے، یہ کالا ہے
اور ہمیں بانٹو گے کتنے خانوں میں
صرف ہوا کی چاپ سُنائی دیتی ہے
جذبوں کی یلغار نہیں طُوفانوں میں
مجھ کو اپنے دیس کی مٹی کافی ہے
کیا رکھا ہے نسلوں اور زبانوں میں
آج کے سُورج ان کے ذہن پر دستک دے
سوئے ہیں جو ماضی کے افسانوں میں
کب تک دھوکا کھائے اپنی پیاس قتیلؔ
خالی جام کھنکتے ہیں مے خانوں میں

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment