Thursday, 24 April 2014

مریض محبت انہی کا فسانہ، سناتا رہا دم نکلتے نکلتے

مریضِ محبت انہی کا فسانہ، سناتا رہا دَم نکلتے نکلتے
مگر ذکر شامِ الم جب بھی آیا چراغِ سحَر بُجھ گیا جلتے جلتے
انہیں خط میں لکھا تھا دلِ مُضطرب ہے جواب ان کا آیا، محبت نہ کرتے
تمہیں دل لگانے کو کس نے کہا تھا، بہل جائے گا دل، بہلتے بہلتے
مجھے اپنے دل کی تو پروا نہیں ہے مگر ڈر رہا ہوں کہ بچپن کی ضد ہے
کہیں پائے نازک میں موچ آ نہ جائے، دلِ سخت جاں کو مسلتے مسلتے
بھلا کوئی وعدہ خلافی کی حد ہے، حساب اپنے دل میں لگا کر تو سوچو
قیامت کا دن آ گیا رفتہ رفتہ، ملاقات کا دن بدلتے بدلتے
ارادہ تھا ترکِ محبت کا لیکن فریبِ تبسّم میں پھر آ گئے ہم
ابھی کھا کے ٹھوکر سنبھلنے نہ پائے کہ پھر کھائی ٹھوکر سنبھلتے سنبھلتے
بس اب صبر کر رہروِ راہِ الفت! کہ تیرے مقدر میں منزل نہیں ہے
اِدھر سامنے سر پہ شام آ رہی ہے اُدھر تھک گئے پاؤں بھی چلتے چلتے
وہ مہمان میرے ہوئے بھی تو کب تک، ہوئی شمع گُل اور نہ ڈُوبے ستارے
قمرؔ اس قدر ان کو جلدی تھی گھر کی کہ گھر چل دیے چاندنی ڈھلتے ڈھلتے

استاد قمر جلالوی

No comments:

Post a Comment