Monday 14 April 2014

بدل چکی ہے ہر اک یاد اپنی صورت بھی

بدل چکی ہے ہر اِک یاد اپنی صورت بھی
وہ عہدِ رفتہ کا ہر خواب ہر حقیقت بھی
کچھ اُن کے کام نکلتے ہیں دشمنی میں مری
میں دشمنوں کی ہمیشہ ہوں ضرورت بھی
کسی بھی لفظ نے تھاما نہیں ہے ہاتھ مِرا
میں پڑھ کے دیکھ چُکی آخری عبارت بھی
یہ جس نے روک لیا مجھ کوآگے بڑھنے سے
وہ میری بے غرضی تھی مِری ضرورت بھی
مِری شکستہ دلی ہی بروئے کار آئی
وگرنہ وقت تو کرتا نہیں رعایت بھی
میں اپنی بات کسی سے بھی کر نہ پاؤں گی
مجھے تباہ کرے گی یہ میری عادت بھی
یہ میرا عجز کہ دل میں اسے اترنے دیا
یہ اس کا مان کہ مانگی نہیں اجازت بھی

شبنم شکیل

No comments:

Post a Comment