Friday 25 April 2014

یہ کس مقام پہ لایا گیا خدایا مجھے

یہ کس مقام پہ لایا گیا خدایا مجھے
کہ آج روند کے گزرا ہے میرا سایہ مجھے
میں جیسے وقت کے ہاتھوں میں اک خزانہ تھا
کسی نے کھو دیا مجھ کو، کسی نے پایا مجھے
اک آرزو کے تعاقب میں یوں ہوا ہے نبیلؔ
ہوا نے ریت کی پلکوں پہ لا بٹھایا مجھے
میں ایک لمحہ تھا اور نیند کے حصار میں تھا
پھر ایک روز کسی خواب نے جگایا مجھے
جہاں کہ صدیوں کی خاموشیاں سُلگتی ہیں
کسی خیال کی وحشت نے گنگنایا مجھے
اِسی زمیں نے ستارہ کیا ہے میرا وجود
سمجھ رہے ہیں زمیں والے کیوں پرایا مجھے
نہ جانے کون ہوں، کس لمحہٴ طلب میں ہوں
نبیلؔ چین سے جینا کبھی نہ آیا مجھے

عزیز نبیل

No comments:

Post a Comment