مرا سوال ہے اے قاتلانِ شب تم سے
کہ یہ زمین منوّر ہوئی ہے کب تم سے
چراغ بخشے گئے شہرِ بے بصارت کو
یہ کارِ خیر بھی سرزد ہوا عجب تم سے
مرے خطاب کی شدّت پہ چیخنے والو
تمہارے لہجے میں گویا ہوا ہوں اب تم سے
وہ ایک عشق جو اب تک ہے تشنہٴ تکمیل
وہ ایک داغ جو روشن ہے روز و شب تم سے
مری نمود میں وحشت ہے میری سوچ میں شور
بہت الگ ہے مری زندگی کا ڈھب تم سے
تمہارے نام کی تہمت ہے میرے سر پہ نبیلؔ
جُدا ہے ورنہ مرا شجرہٴ نسب تم سے
عزیز نبیل
کہ یہ زمین منوّر ہوئی ہے کب تم سے
چراغ بخشے گئے شہرِ بے بصارت کو
یہ کارِ خیر بھی سرزد ہوا عجب تم سے
مرے خطاب کی شدّت پہ چیخنے والو
تمہارے لہجے میں گویا ہوا ہوں اب تم سے
وہ ایک عشق جو اب تک ہے تشنہٴ تکمیل
وہ ایک داغ جو روشن ہے روز و شب تم سے
مری نمود میں وحشت ہے میری سوچ میں شور
بہت الگ ہے مری زندگی کا ڈھب تم سے
تمہارے نام کی تہمت ہے میرے سر پہ نبیلؔ
جُدا ہے ورنہ مرا شجرہٴ نسب تم سے
عزیز نبیل
No comments:
Post a Comment