Wednesday 16 April 2014

پھر وہی بے دلی پھر وہی معذرت

پھر وہی بے دلی، پھر وہی معذرت
بس بہت ہو چکا، زندگی! معذرت
خود کلامی سے بھی رُوٹھ جاتی ہے تُو
اب نہ بولوں گا اے خامشی! معذرت
داد، بے داد میں جی نہيں لگ رہا
دوستو! شکريہ، شاعری! معذرت
اب يہ آنسو دوبارہ نہيں آئيں گے
اب نہ ہو گی مری واپسی، معذرت
بے خودی ميں، خدائی کا دعویٰ کيا
اے خدا! درگزر، اے خودی! معذرت
تجھ سے گزری ہوئی زندگی مانگ لی
ربِ امروز و فردا و دی، معذرت
دھوپ ڈھل بھی چکی، سائے اٹھ بھی چکے
اب مرے يار! کس بات کی معذرت
اک نظر اس نے ديکھا ہے عاصمؔ، چلو
دور ہی سے سہی، ہو چکی معذرت

لياقت علی عاصم

No comments:

Post a Comment