Saturday 26 April 2014

خواب دیکھا تھا دلنشیں میں نے

خواب دیکھا تھا دلنشیں میں نے
بھر دیئے رنگ ہر کہیں میں نے
کوئی آیا، یہاں، نہیں، شاید
کس کو دیکھا ہے پھر یہیں میں نے
کوئی صورت ابھرتی رہتی ہے
جس کو سوچا ابھی نہیں میں نے
ایک دل تھا، نجانے کیسا ہو
کھو دیا تھا یہیں کہیں میں نے
باغِ نادید کے احاطے سے
چن لیا ہے گُلِ یقیں میں نے
دربدر ہوں تو کیا گِلہ خود سے
خود کو رکھا نہیں مکِیں میں نے
پھول کو چُوم کر لگا ایسے
جیسے چُومی ہو وہ جبِیں میں نے
تو وہ سب خواب تھا، کہانی تھی
خود کو دیکھا تھا جب حسِیں میں نے
کیا بھلے دن تھے جنتوں جیسے
جب نہ دیکھی تھی یہ زمیں میں نے

حماد نیازی

No comments:

Post a Comment