Saturday 19 April 2014

کہیں عمر کے کسی باب میں نہیں آئے گا

کہیں عمر کے کسی باب میں نہیں آئے گا
جو بچھڑ گیا ہے وہ خواب میں نہیں آئے گا
وہ جو حرف طاقِ نگاہ سے نہ اتر سکا
وہ جو حرف دل کی کتاب میں نہیں آئے گا
وہی ایک پل، وہ جو حاصلِ زرِ عمر ہے
وہی ایک پل جو حساب میں نہیں آئے گا
وہ جو بند ہے درِ رنگ و بُو اسے بُھول جا
کوئی پُھول خط کے جواب میں نہیں آئے گا
وہ محبتیں، وہ رفاقتیں، نہ شُمار کر
یہ سوال اگلے نصاب میں نہیں آئے گا

اشرف یوسفی

No comments:

Post a Comment