Thursday 17 April 2014

گزشتہ شب جو ہستی برفرازِ دار تھی میں تھا

گزشتہ شب جو ہستی بر فرازِ دار تھی، میں تھا
پھر اگلے دن جو سُرخی شوکتِ اخبار تھی، میں تھا
وہاں کچھ لوگ تھے، الزام تھے، باقی اندھیرا ہے
بس اتنا یاد ہے جلاد تھا،. تلوار تھی،. میں تھا
جہاں تصویر بنوانے کی خاطر لوگ آتے تھے
وہاں پس منظرِ تصویر جو دیوار تھی، میں تھا
میں اپنا سر نہ کرتا پیش اُجرت میں، تو کیا کرتا
تمہاری بات تھی، وہ بھی سرِ بازار تھی، میں تھا
یہ ویراں سُرخ سیارے، انہیں دیکھوں تو لگتا ہے
تری دنیا میں جو چہکار تھی، مہکار تھی، میں تھا
خفا مت ہو، مِرے بدلے وہاں گل دان رکھ دینا
تِرے کمرے کی چیزوں میں جو شئے بیکار تھی، میں تھا
تمہارے خط جو میں نے خود کو ڈالے تھے، نہیں پہنچے
تُو انجانے میں جس کے پیار سے دوچار تھی، میں تھا
مِرے کھلیان تھے، دہقان تھے، تقدیر تھی، تُو تھا
تِرا زندان تھا، زنجیر تھی، جھنکار تھی، میں تھا

ادریس آزاد

No comments:

Post a Comment