Friday 25 April 2014

میں اپنے گرد لکیریں بچھائے بیٹھا ہوں

میں اپنے گرد لکیریں بچھائے بیٹھا ہوں
سرائے درد میں ڈیرہ جمائے بیٹھا ہوں
نبیلؔ ریت میں سِکّے تلاش کرتے ہوئے
میں اپنی پوری جوانی گنوائے بیٹھا ہوں
جو لوگ درد کے گاہک ہیں سامنے آئیں
ہر ایک زخم سے پردہ اٹھائے بیٹھا ہوں
یہ شہر کیا ہے نکلتا نہیں کوئی گھر سے
کئی دنوں سے تماشا لگائے بیٹھا ہوں
بہت طلب تھی مجھے روشنی میں رہنے کی
سو یوں ہوا ہے کہ آنکھیں جلائے بیٹھا ہوں
یہ دیکھو چاند، وہ سورج، وہ اس طرف تارے
اک آسمان زمیں پر سجائے بیٹھا ہوں
نہ جانے کون سا عالم ہے یہ، عزیز نبیلؔ
میں ریگزار میں کشتی بنائے بیٹھا ہوں

عزیز نبیل

No comments:

Post a Comment