Monday 14 April 2014

یہ وزیران کرام

یہ وزیرانِ کرام

کوئی ممنونِ فرنگی، کوئی ڈالر کا غلام
دھڑکنیں محکوم ان کی لب پہ آزادی کا نام
ان کو کیا معلوم کس عالم میں رہتے ہیں عوام
یہ وزیرانِ کرام

ان کو فرصت ہے بہت اونچے امیروں کے لیے
ان کے ٹیلیفون قائم ہیں‌ سفیروں کے لیے
وقت ان کے پاس کب ہے ہم فقیروں کے لیے
چھو نہیں سکتے ہم ان کا اونچا مقام
یہ وزیرانِ کرام

صبح چائے ہے یہاں تو شام کھانا ہے وہاں
کیوں نہ مغرور چلتی ہے میاں ان کی دکاں
جب یہ چاہیں ریڈیو پہ جھاڑ‌ سکتے ہیں بیاں
ہم ہیں پیدل، کار پہ یہ، کس طرح ہوں ہمکلام
یہ وزیرانِ کرام

قوم کی خاطر اسمبلی میں یہ مر بھی جاتے ہیں
قوت بازو سے اپنی بات منواتے بھی ہیں
گالیاں دیتے بھی ہیں اور گالیاں کھاتے بھی ہیں
یہ وطن کی آبرو ہیں، کیجیے ان کو سلام
یہ وزیرانِ کرام

ان کی محبوبہ وزارت، داشتائیں کرسیاں
جان جاتی ہے تو جائے پر نہ جائیں کرسیاں
دیکھئے یہ کب تلک یوں ہی چلائیں کرسیاں
عارضی ان کی حکومت عارضی ان کا قیام
یہ وزیرانِ کرام

حبیب جالب

No comments:

Post a Comment