Saturday, 26 April 2014

غموں کی دھوپ میں برگد کی چھاؤں جیسی ہے

غموں کی دھوپ میں برگد کی چھاؤں جیسی ہے
مِرے لیے مِری ہمشیر ماؤں جیسی ہے
بھٹکتا ہوں تو مجھے راستہ دکھاتی ہے
وہ ہمسفر ہے، مگر رہنماؤں جیسی ہے
ہو جیسے ایک ہی کنبے کی ساری آبادی
فضا ہمارے محلے کی گاؤں جیسی ہے
نئے بشر نے مسخّر کیے مہ و انجم
نئے دماغ میں وسعت خلاؤں جیسی ہے
حقیقتوں کے مقابل ٹھہر نہیں سکتی
پرانی فکر بھی جھوٹے خداؤں جیسی ہے
خلانوردوں کی منزل نہیں پڑاؤ ہے
مثال چاند کی سپراؔ سراؤں جیسی ہے

تنویر سپرا

No comments:

Post a Comment