Monday 14 April 2014

ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا
پتھر کو گہر، دیوار کو در، کرگس کو ہُما کیا لکھنا

اک حشر بپا ہے گھر گھر میں، دم گھٹتا ہے گنبدِ بے در میں
اک شخص کے ہاتھوں مدت سے رُسوا ہے وطن دنیا بھر میں
اے دیدہ ورو! اس ذلّت کو قسمت کا لکھا کیا لکھنا
یہ اہل حشم، یہ دارا، جم، سب نقش برآب ہیں اے ہمدم
مٹ جائیں گے سب پروردۂ شب اے اہل وفا رہ جائیں گے ہم
ہو جاں کا زیاں پر قاتل کو معصوم ادا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

لوگوں پہ ہی ہم نے جاں واری، کی ہم نے اِنہی کی غمخواری
ہوتے ہیں تو ہوں یہ ہاتھ قلم شاعر نہ بنیں گے درباری
ابلیس نما انسانوں کی، اے دوست! ثنا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا

حق بات پہ کوڑے اور زنداں، باطل کے شکنجے میں ہے یہ جاں
انساں ہیں کہ سہمے بیٹھے ہیں خونخوار درندے ہیں رقصاں
اس ظلم و ستم کو لطف و کرم، اس دُکھ کو دوا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا

ہر شام یہاں شام ویراں آسیب زدہ رستے گلیاں
جس شہر کی دھن میں نکلے تھے، وہ شہرِ دل برباد کہاں
صحرا کو چمن، بن کو گلشن، بادل کو ردا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا، صرصر کو صبا، بندے کو خدا کیا لکھنا

اے میرے وطن کے فنکارو، ظلمت پہ نہ اپنا فن وارو
یہ محل سراؤں کے باسی قاتل ہیں سبھی، اپنے یارو
ورثے میں ہمیں یہ غم ہے ملا، اس غم کو نیا کیا لکھنا
ظلمت کو ضیا صرصر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا

حبیب جالب

No comments:

Post a Comment