Thursday 17 April 2014

جب سلسلۂ قیدِ سلاسل کہیں نہ تھا

جب سلسلۂ قیدِ سلاسل کہیں نہ تھا
رہبر کوئی بھی رہروئے منزل کہیں نہ تھا
نظروں کے ساتھ ہی کسی جانب نکل گیا
پورے بدن میں ڈھونڈا، مگر دِل کہیں نہ تھا
خالی پڑے تھے سب مرے صندوق جرم کے
اتنے برس میں عمر کا حاصل کہیں نہ تھا
کچھ اس لیے بھی سرد تھا مقتل کا کاروبار
مقتول دستیاب تھے، قاتل کہیں نہ تھا
آنکھوں میں اس فرات کی آ کر ٹھہر گیا
جس بحرِ بے کنار کا ساحل کہیں نہ تھا
وہ جس کی دسترس میں تھے میرے تمام راز
میں اُس کے اعتماد میں شامِل کہیں نہ تھا

ادریس آزاد

No comments:

Post a Comment