Saturday 26 April 2014

کسی کا نام لو، بے نام افسانے بہت سے ہیں

کسی کا نام لو، بے نام افسانے بہت سے ہیں
نہ جانے کس کو تم کہتے ہو دیوانے بہت سے ہیں
جفاؤں کے گِلے تم سے خدا جانے بہت سے ہیں
تِری محفل میں ورنہ جانے پہچانے بہت سے ہیں
دھری رہ جائے گی پابندئ زِنداں، جو اب چھیڑا
یہ دربانوں کو سمجھا دو کہ دیوانے بہت سے ہیں
بس اب سو جاؤ نیند آنکھوں میں ہے کل پھر سنائیں گے
ذرا سی رہ گئی ہے رات، افسانے بہت سے ہیں
تمہیں کس نے بلایا مے کشوں سے یہ نہ کہہ ساقی
طبیعت مِل گئی ہے ورنہ مے خانے بہت سے ہیں
بڑی قربانیوں کے بعد رہنا باغ میں ہو گا
ابھی تو آشیاں بجلی سے جلوانے بہت سے ہیں
لکھی ہے خاک اڑانی ہی گر اپنے مقدر میں
ترے کوچے پہ کیا موقوف دیوانے بہت سے ہیں
نہ رو اے شمع! موجودہ پتنگوں کی مصیبت پر
ابھی محفل سے باہر تیرے پروانے بہت سے ہیں
مرے کہنے سے ہو گی ترکِ رسم و راہ غیروں سے
بجا ہے، آپ نے کہنے میرے مانے بہت سے ہیں
قمرؔ اللہ ساتھ ایمان کے منزل پہ پہنچا دے
حرم کی راہ میں سنتے ہیں بتخانے بہت سے ہیں

استاد قمر جلالوی

No comments:

Post a Comment