Thursday 24 April 2014

نشاں کیونکر مٹا دیں یہ پریشانی نہیں جاتی

نشاں کیونکر مٹا دیں یہ پریشانی نہیں جاتی
بگولوں سے ہماری قبر پہچانی نہیں جاتی
خدائی کی ہے یہ ضد اے بت یہ نادانی نہیں جاتی
زبردستی کی منوائی ہوئی مانی نہیں جاتی
ہزاروں بار مانی حُسن نے ان کی وفاداری
مگر اہلِ محبت ہیں کہ قربانی نہیں جاتی
سحر کے وقت منہ کلیوں نے کھولا ہے پئے شبنم
ہوا ٹھنڈی ہے مگر پیاس بے پانی نہیں جاتی
قمرؔ کل ان کے ہونے سے ستارے کتنے روشن تھے
وہی یہ رات ہے جو آج پہچانی نہیں جاتی

استاد قمر جلالوی

No comments:

Post a Comment