Sunday 13 April 2014

نفس کو فکر جوہر ہے، جہاں میں ہوں

نفس کو فکرِ جوہر ہے، جہاں میں ہوں
سمندر ہی سمندر ہے، جہاں میں ہوں
بجھی جاتی ہیں قندیلیں توہم کی
طلوعِ عقلِ خاور ہے، جہاں میں ہوں
نظر آتی ہے اپنی ماہیت جس میں
وہ آئینہ میسر ہے، جہاں میں ہوں
ازل کی بے نقابی اور اجل کی بھی
سبھی اِمکاں کے اندر ہے، جہاں میں ہوں
نہ کوہِ قاف کی پریوں کے جھرمٹ ہیں
نہ غولِ دیو و اژدر ہے، جہاں میں ہوں
نہ سفاکی، نہ دلداری کی رسمیں ہیں
نہ مرہم ہے نہ خنجر ہے، جہاں میں ہوں
خدا ہے اپنے نیلے آسمانوں میں
زمیں ہے، خیر ہے، شر ہے، جہاں میں ہوں
قدم اٹھتے ہیں نامعلوم سَمتوں کو
ہر اِک شے بے مقدر ہے، جہاں میں ہوں
نفس ہے تشنگی کا دشتِ بے منزل
نفس ہی موجِ کوثر ہے، جہاں میں ہوں
بدن کیا چیز ہے، خود میرا سایہ بھی 
مرے سائے سے باہر ہے، جہاں میں ہوں

مصطفیٰ زیدی 

No comments:

Post a Comment