Saturday 26 April 2014

نجانے کون سی وحشت سے بھر گیا ہوں میں

نجانے کون سی وحشت سے بھر گیا ہوں میں
گلِ سفید کو چھوتے ہی ڈر گیا ہوں میں
کہیں دکھائی نہیں دے رہا ہوں خود کو بھی
تمہاری حد سے نکل کر کدھر گیا ہوں میں
تمام عمر یہی اِک گِلہ رہا خود سے
تمام فیصلے عُجلت میں کر گیا ہوں میں
سفر، سفر، کوئی رہتا تھا ساتھ ساتھ مِرے
مگر یہ شام، کہ تنہا ہی گھر گیا ہوں میں
مراجعت پہ تہی دست ہوں مگر خوش ہوں
گلِ دُعا تِری چوکھٹ پہ دھر گیا ہوں میں
بدن کے قصرِ ملامت سے دور جاتے ہوئے
تِری طرف ہی گیا ہوں، اگر گیا ہوں میں
اسے پکار رہا ہوں بڑے تسلسل سے
یہ اور بات کہ بے حد بکھر گیا ہوں میں
دُھلی ہوئی تھی سڑک خامشی کی بارش میں
میں خود سے پوچھ رہا تھا، ادھر گیا ہوں میں
مجھے یقین ہے، شاید، نہیں یقین مجھے
میں مر رہا ہوں، نہیں یار! مر گیا ہوں میں

حماد نیازی

No comments:

Post a Comment