Friday 25 April 2014

جستجو حیران بازاروں کے بیچ

جستجو حیران بازاروں کے بیچ
کھو گئے ہیں راستے کاروں کے بیچ
تنگ ہوتی جا رہی ہے یہ زمیں
سر نکل آئے ہیں دیواروں کے بیچ
ہر طرف آلودگی ماحول میں
جنگ چھڑ جائے نہ سیّاروں کے بیچ
یہ ترقی واپسی ثابت نہ ہو
پھر نہ پہنچے آدمی غاروں کے بیچ
آنسوؤں کے ہیں نشاں ہر سطر میں
مُسکراہٹ گُم ہے اخباروں کے بیچ
ظُلم پر خاموش رہنا جُرم ہے
ہم بھی شامل ہیں گنہگاروں کے بیچ
ایک تختی امن کے پیغام کی
ٹانگ دیجئے اونچے میناروں کے بیچ

 عزیز نبیل

No comments:

Post a Comment