Saturday 26 April 2014

آج اتنا جلاؤ کہ پگھل جائے مرا جسم

آج اتنا جلاؤ کہ پگھل جائے مِرا جسم
شاید اسی صورت ہی سکوں پائے مِرا جسم
آغوش میں لے کر مجھے اس زور سے بھینچو
شیشے کی طرح چَھن سے چٹخ جائے مِرا جسم
یا دعوائے مہتابِ تجلّی نہ کرے وہ
یا نُور کی کرنوں سے وہ نہلائے مِرا جسم
کسی شہرِ طلسمات میں لے آیا تخیّل
جس سمت نظر جائے نظر آئے مِرا جسم
آئینے کی صورت میں مری ذات کے دو رُخ
جاں محوِ فُغاں ہے تو غزل گائے مِرا جسم
تنویرؔ پڑھو اسم کوئی ردِ بلا کا
گھیرے میں لیے بیٹھے ہیں کچھ سائے مِرا جسم

تنویر سپرا

No comments:

Post a Comment