Wednesday 23 April 2014

آنکھوں کے دریچوں سے دھڑکن میں اتر آئی

آنکھوں کے دریچوں سے دھڑکن میں اُتر آئی 
دل جیسی کوئی صورت دِلی میں نظر آئی
پہلے تو اُداسی سے دھندلائی رہیں آنکھیں 
پھر آئے نظر غالب، اور شام نکھر آئی
رات آئی تو کوچوں میں تھیں میر کی آوازیں
پھر آنکھ کہاں جھپکی، پھر نیند کدھر آئی 
اُس شہر میں یُوں کھویا، ہنستے ہوئے میں رویا
بیتی ہوئی صدیوں سے اپنوں کی خبر آئی 
پہنچا تو تھا پُورا میں، لَوٹا ہوں ادھورا میں 
میں جسم تو لے آیا، پر رُوح نہ گھر آئی 
دلی کے نہ تھے کوچے، اوراقِ مصور تھے
جو شکل نظر آئی، تصویر نظر آئی 

رحمان فارس

No comments:

Post a Comment