Wednesday 16 April 2014

کشت امید بارور نہ ہوئی

کشتِ امید باروَر نہ ہُوئی
لاکھ سورج اُگے سحر نہ ہوئی
ہم مسافر تھے دھوپ کے، ہم سے
ناز بردارئ شجر🌴 نہ ہوئی
مجھ کو افسوس ہے کہ تیری طرف
سب نے دیکھا، مِری نظر نہ ہوئی
گھر کی تقسیم کے سوا اب تک
کوئی تقریب میرے گھر نہ ہوئی
نام میرا تو تھا سرِ فہرست
اتفاقاً مجھے خبر نہ ہوئی
جانے کیا اپنا حال کر لیتا
خیر گزری اسے خبر نہ ہوئی

لیاقت علی عاصم

No comments:

Post a Comment