Saturday 19 April 2014

اپنے سائے کی رفاقت سے بھی کتراتا ہے

اپنے سائے کی رفاقت سے بھی کتراتا ہے
یوں بھی صحرا میں کوئی آبلہ پا آتا ہے
آنکھ کھلتی ہے تو رِستا ہے لہو پوروں سے
خواب میں ہاتھ کسی شاخ تلک جاتا ہے
دیکھے دیکھے سے مناظر ہیں جنہیں دیکھتا ہوں
وقت میرے ہی کسی خواب کو دُہراتا ہے
ایک دو گھونٹ بس اس زیست کی شیرینی ہے
پھر یہ ساغر کسی زہراب سے بھر جاتا ہے
ایک سایہ سا کہیں رات کی خاموشی میں
نرم پوروں سے مِرے زخم کو سہلاتا ہے
ایسے آتا ہے کوئی پرسشِ احوال کو آج
جیسے زنداں میں کوئی فرمانروا آتا ہے
نیند میں جانبِ صحرا میں نکل جاتا ہوں
پھر مِرا سر کسی دیوار سے ٹکراتا ہے
چلتا رہتا ہے دلِ زار میں تعمیر کا کام
زخم پر ایک نیا زخم جگہ پاتا ہے
میرا ملبہ ہی نمودار ہوا ہو جیسے
یہ جزیرہ جو سرِ آب نظر آتا ہے
میں اسی چاک پہ تکمیلِ ہُنر کرتا ہوں
اسی مٹی میں مِرا خواب نمُو پاتا ہے.
ایسا موسم ہے کہ خُوشبو کو ترستی ہے ہوا
ایسی رُت میں کہاں پیڑوں پہ ثمر آتا ہے

اشرف یوسفی

No comments:

Post a Comment