Wednesday, 16 April 2014

متاع قلب و جگر ہیں ہمیں کہیں سے ملیں

متاعِ قلب و جگر ہیں، ہمیں کہیں سے ملیں
مگر وہ زخم جو اُس دستِ شبنمیں سے ملیں
نہ شام ہے، نہ گھنی رات ہے، نہ پچھلا پہر
عجیب رنگ تِری چشمِ سُرمگیں سے ملیں
میں اِس وصال کے لمحے کا نام کیا رکھوں
تِرے لباس کی شِکنیں تری جبیں سے ملیں
ستائش مرے احباب کی نوازش ہیں
مگر صلے تو مجھے اپنے نکتہ چیں سے ملیں
تمام عمر کی نا معتبر رفاقت سے
کہیں بھلا ہو کہ پَل بھر ملیں، یقیں سے ملیں
یہی رہا ہے مقدر، مِرے کسانوں کا
کہ چاند بوئیں اور ان کو گہن زمیں سے ملیں

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment