Thursday 30 November 2017

ربط اسیروں کو ابھی اس گل تر سے کم ہے

ربط اسیروں کو ابھی اس گلِ تر سے کم ہے 
ایک رخنہ سا ہے دیوار میں در سے کم ہے 
حرف کی لو میں ادھر اور بڑھا دیتا ہوں 
آپ بتلائیں تو یہ خواب جدھر سے کم ہے 
ہاتھ دنیا کا بھی ہے دل کی خرابی میں بہت 
پھر بھی اے دوست تِری ایک نظر سے کم ہے 

کسی کے ہاتھ کہاں یہ خزانہ آتا ہے

کسی کے ہاتھ کہاں یہ خزانہ آتا ہے 
مِرے عزیز کو ہر اک بہانہ آتا ہے 
ذرا سا مل کے دکھاؤ کہ ایسے ملتے ہیں 
بہت پتا ہے تمہیں چھوڑ جانا آتا ہے 
زمانے ہو گئے دریا تو کہہ گیا تھا مجھے 
بس ایک موج کو کر کے روانہ آتا ہے 

سفر دیوار گریہ کا

سفر دیوارِ گریہ کا

تمہیں اس شہر سے رخصت ہوئے 
کتنا زمانہ ہو چکا پھر بھی 
ابھی تک میرے کمرے میں 
تمہارے جسم کی خوشبو کا ڈیرا ہے 
بظاہر تو تمہارے بعد ابھی تک میں 

Sunday 26 November 2017

ہر طرف جور و جفا رقص کناں جانیں تو

ہر طرف جور و جفا رقص کناں جانیں تو
انقلاب آئے گا، یہ لوگ ذرا جاگیں تو
میں نہیں رہنے لگا یوں بھی کسی بندش میں
وہ مجھے ملک بدر کر دیں اگر چاہیں تو
بھیج دیں درد کے اولے بھی ہماری جانب
برقِ غم مسکنِ گلفام پہ بھی ڈھائیں تو

بڑے بڑوں نے ترے در کی خاک چھانی ہے

بڑے بڑوں نے تِرے در کی خاک چھانی ہے
اسی پہ ختم خدا جانے حکمرانی ہے
اب ایک خواب کی خاطر جگر کریدے کون
کچھ اک نئی تو نہیں شکل وہ پرانی ہے
بگڑ گئے شرکاء تو مِری ستائش پر
تِرے جلوس میں کیا ذم کی قدردانی ہے

تجھ پہ میں مشتمل نہ تھا پہلے

تجھ پہ میں مشتمل نہ تھا پہلے
مجھ میں تُو منتقل نہ تھا پہلے
امن مفقود بھی نہ تھا یکسر
جور بھی مستقل نہ تھا پہلے
اب غلط کر رہے ہیں رو رو کر
غم تِرا جاں گسل نہ تھا پہلے

سب تقاضے مرے سمجھ لو جی

سب تقاضے مِرے سمجھ لو جی
آدمی ہوں مجھے سمجھ لو جی
غیر سنجیدگی نہیں خصلت
ہم نہیں منچلے، سمجھ لو جی
کارِ دنیا قلیل مہلت میں
سب دھرے کے دھرے سمجھ لو جی

غزل کے رنگ اگر پیرہن سے نکلے ہیں

غزل کے رنگ اگر پیرہن سے نکلے ہیں
تو کیا یہ پھول بھی اس گل بدن سے نکلے ہیں
کلام کرتی نہیں مجھ سے ایک شب آنکھیں
یہ میرے خواب تو میرے سخن سے نکلے ہیں
نجانے کون سے صحرا میں اب ٹھکانہ ہو
بشکلِ خار تو ہم اس چمن سے نکلے ہیں

کسی ثبوت کی اس کو تلاش تھی ہی نہیں

کسی ثبوت کی اس کو تلاش تھی ہی نہیں
میں مر گیا تھا کہیں میری لاش تھی ہی نہیں
یقین کون کرے، آئینے سے نکلا ہوں
کہ میرے چہرے پہ کوئی خراش تھی ہی نہیں
مکانِ زیست کی تعمیر جیسے تیسے ہوئی
کسی بھی لمحے کی کوئی تراش تھی ہی نہیں

ایماں کی نمائش ہے سجدے ہیں کہ افسانے

ایماں کی نمائش ہے سجدے ہیں کہ افسانے 
ہیں چاند جبینوں پر اور ذہن میں بت خانے 
کچھ عقل کے متوالے کچھ عشق کے دیوانے 
پرواز کہاں تک ہے کس کی یہ خدا جانے 
کم ظرف کی نیت کیا پگھلا ہوا لوہا ہے 
بھر بھر کے چھلکتے ہیں اکثر یہی پیمانے 

ہیں لوگ جتنے بھی دیکھنے میں قریب تیرے قریب میرے

ہیں لوگ جتنے بھی دیکھنے میں قریب تیرے قریب میرے
پڑی جو مشکل تو کتنے ہوں سے حبیب تیرے حبیب میرے
ذرا سا لگتے ہیں جب سنورنے، بگاڑ دیتا ہے کون جانے
رہے ہیں حالات زندگی کے عجیب تیرے عجیب میرے
ہزار غم ہیں جدائیوں کے، اداس میں بھی ملول تُو بھی
کسی نے تحریر کیا کئے ہیں نصیب تیرے نصیب میرے

ترے ستم کی زمانہ دہائی دیتا ہے

تِرے ستم کی زمانہ دہائی دیتا ہے 
کبھی یہ شور تجھے بھی سنائی دیتا ہے 
شجر سے ٹوٹنے والے ہر ایک پتے میں 
تِرے بچھڑنے کا منظر دکھائی دیتا ہے 
جو دل میں بات ہو کھلتی نہیں کسی پہ مگر 
کہے جو آنکھ وہ سب کو سنائی دیتا ہے 

یوں ہراساں ہیں مسافر بستیوں کے درمیاں

یوں ہراساں ہیں مسافر بستیوں کے درمیاں 
ہو گئی ہو شام جیسے جنگلوں کے درمیاں 
زندگی سے اب یہی دو چار پل کا ساتھ ہے 
پانیوں سے آ گیا ہوں دلدلوں کے درمیاں 
چار جانب پھیلتے ہی جا رہے ہیں ریگزار 
تشنگی ہی تشنگی ہے خواہشوں کے درمیاں 

چپ چاپ سے اس دشت میں ظلمت کا سماں ہے

چپ چاپ سے اس دشت میں ظلمت کا سماں ہے 
پتھرائی ہوئی آنکھ میں شعلہ بھی کہاں ہے 
سوکھے ہوئے پتوں کو جو روندو تو صدا دیں 
پستے ہوئے انسان کے منہ میں تو زباں ہے 
عظمت کی بلندی پہ میں جس سمت گیا ہوں 
دیکھا ہے تِرے پاؤں کا پہلے ہی نشاں ہے 

کم سے کم اپنا بھرم تو نہیں کھویا ہوتا

کم سے کم اپنا بھرم تو نہیں کھویا ہوتا 
دل کو رونا تھا تو تنہائی میں رویا ہوتا 
صبح سے صبح تلک جاگتے ہی عمر کٹی 
ایک شب ہی سہی بھر نیند تو سویا ہوتا 
ڈھونڈھنا تھا مرے دل کو تو کبھی پلکوں سے 
میرے اشکوں کے سمندر کو بلویا ہوتا 

وقت وقت کی بات ہے

وقت وقت کی بات ہے

وہی ہم تھے کہ اس شہر سکوں میں 
رت جگوں کی دھوم تھی ہم سے 
وہی ہم ہیں کہ شہر بے اماں کی بھیڑ میں 
خود اپنی تنہائی پہ حیراں ہیں 
ہمارا جبر مجبوری 

Sunday 19 November 2017

سواد عشق نبی کیا کمال ہوتا ہے

عارفانہ کلام حمد نعت مقبت

سوادِ عشق نبیﷺ کیا کمال ہوتا ہے
دیارِ روح میں حسن و جمال ہوتا ہے
جو اس چراغ کا پروانہ بن کے رہ جائے
اسے نہ کھال نہ جاں کا خیال ہوتا ہے
سخاوتوں کے خزانے نثار ہوتے ہیں
عقیدتوں کا سفر لازوال ہوتا ہے

تیرا ذکر صبح کا نور ہے تیری یاد رات کی چاندنی

عارفانہ کلام حمد نعت مقبت

تیرا ذکر صبح کا نور ہے تیری یاد رات کی چاندنی
تیری نعت اے شہِﷺ دو سرا دل بے قرار کی راگنی
مجھے تیری یاد سے واسطہ تیرا پیار ہے میرا راستہ
تیرا نام میری اساس ہے تیرا تذکرہ مِری بندگی
میں تو داس ہوں تیرے نام کا میں غلام تیرے غلام کا
مِری بات بات کا حسن تو میرا ناز ہے تیری شاعری

مناؤ خوشیاں زمین والو فلک سے خیر الانام آیا

عارفانہ کلام حمد نعت مقبت

فضا میں خوشبو بکھر گئی ہے لبوں پہ میرے سلام آیا
مناؤ خوشیاں زمین والو! فلک سے خیر الانامﷺ آیا
تمام راہیں ہوئیں وہ روشن جہاں بسیرے تھے تیرگی کے
جھکے ہیں کیا کیا اٹھے ہوئے سر یہ کون ذی احترام آیا
جو بزم ہو شاہِ دوسرا کی وہاں ادب کا لحاظ رکھنا
بلند اپنی صدا نہ کرنا کلامِ حق میں پیام آیا

ظہورِ مصطفیٰ سے ہو گئے دونوں جہاں روشن

عارفانہ کلام حمد نعت مقبت

زمیں و آسماں روشن مکان و لا مکاں روشن
ظہورِ مصطفیٰﷺ سے ہو گئے دونوں جہاں روشن
گئی جن راستوں سے تھی سواری کملی والے کی
انہی رستوں کا اب تک ہے غبار کارواں روشن
نصیبوں پر میں اپنے ناز جتنا بھی کروں کم ہے
ہر اک سینے میں ہوتا ہے تمہارا غم، کہاں روشن

وہ جس کے لیے محفل کونین سجی ہے

نعت رسول مقبولﷺ

وہ جس کے لیے محفل کونین سجی ہے
فردوس بریں جس کے وسیلے سے بنی ہے
وہ ہاشمی مکی مدنی العربی ہے
وہ میرا نبی میرا نبی میرا نبیﷺ ہے

احمدؐ ہے محمدؐ ہے وہی ختمِ رُسل ہے
مخدوم و مربّی ہے وہی والئ کل ہے

Wednesday 15 November 2017

کچھ دے اسے رخصت کر کیوں آنکھ جھکا لی ہے

کچھ دے اسے رخصت کر کیوں آنکھ جھکا لی ہے 
ہاں در پہ تِرے مولا! انشاؔ بھی سوالی ہے 
اس بات پہ کیوں اس کی اتنا بھی حجاب آئے 
فریاد سے بے بہرہ کشکول سے خالی ہے 
شاعر ہے تو ادنیٰ ہے، عاشق ہے تو رسوا ہے 
کس بات میں اچھا ہے کس وصف میں عالی ہے 

دل اک کٹیا دشت کنارے

دل اک کٹیا دشت کنارے

دنیا بھر سے دور یہ نگری
نگری دنیا بھر سے نرالی
اندر ارمانوں کا میلہ
باہر سے دیکھو تو خالی
ہم ہیں اس کٹیا کے جوگی
ہم ہیں اس نگری کے والی

یہ سرائے ہے یہاں کس کا ٹھکانا ڈھونڈو

یہ سرائے ہے یہاں کس کا ٹھکانا ڈھونڈو 
یاں تو آتے ہیں مسافر سو چلے جاتے ہیں 
ہاں یہی نام تھا کچھ ایسا ہی چہرا مہرا 
یاد پڑتا ہے کہ آیا تھا مسافر کوئی 
سونے آنگن میں پھرا کرتا تھا تنہا تنہا 
کتنی گہری تھی نگاہوں کی اداسی اس کی 

دل آشوب

دل آشوب

یوں کہنے کو راہیں ملک وفا کی اجال گیا 
اک دھند ملی جس راہ میں پیک خیال گیا 
پھر چاند ہمیں کسی رات کی گود میں ڈال گیا

ہم شہر میں ٹھہریں، ایسا تو جی کا روگ نہیں 
اور بن بھی ہیں سونے ان میں بھی ہم سے لوگ نہیں 
اور کوچے کو تیرے لوٹنے کا تو سوال گیا 

Tuesday 14 November 2017

سیل رواں میں بہہ گئے اور یہ آخرش ہوا

سیلِ رواں میں بہہ گئے اور یہ آخرش ہوا
اس نے مجھے بھلا دیا، میں نے اسے بھلا دیا
جاز کی نیلگوں سی دُھن، سوزِ دروں میں مطربہ
گیت کے بول بھی حزیں، شامِ فراق غم فزا
کرتی رہی تھی تیری یاد میرے خیال کی نمو
حرف بہ حرف، شعر شعر، تیرے ہی رنگ میں ڈھلا

جس کی طرف تھا گامزن دشت کا اک سراب تھا

جس کی طرف تھا گامزن، دشت کا اک سراب تھا
مجھ کو شعور تھا مگر، میرا یہی عذاب تھا
فون کی آس رات بھر، صبح ہوا یہ آشکار
تار بِتار قلب تھا، تار مِرا خراب تھا
قوسِ قزح میں عکس تھا، عکس میں یاد تھی کوئی
خواب میں اِک خیال تھا، اور خیال خواب تھا

دل نے ہم سے عجب ہی کام لیا

دل نے ہم سے عجب ہی کام لیا 
ہم کو بیچا،۔ مگر نہ دام لیا 
دل سے آخر چراغِ وصل بجھا 
کیا تمنا نے انتقام لیا؟ 
پھر کبھی وہ نہ آئی ہم کو نظر 
جس پری رُو کا ہم نے نام لیا 

فن تو آتا مجھے قرینے کا

نعتِ رسولِ مقبولﷺ

فن تو آتا مجھے قرینے کا
کاش ہوتا گدا مدینے کا
کون خوشبو مقابلہ کرتی
آپؐ کے بوند بھر پسینے کا
تر پڑے گا حدیث پڑھ لے تو
ڈوبتا ناخدا سفینے کا

مسلکوں کو مٹا دیا میں نے

مسلکوں کو مٹا دیا میں نے
کر دیا سب کو ایک سا میں نے
موت سے کھیل کر یہ اپنی جان
آپ کے نام کی بجا میں نے
اب گورا کِیا ہے مدت بعد
نام لینا نہ آپ کا میں نے

صبح تلک مر مر کے جیا تھا

صبح تلک مر مر کے جیا تھا
جلنے والا ایک دِیا تھا
یاد رہے اس پہلی ہاں کا
ذرا نہ تم نے پاس کیا تھا
آنکھوں نے وہ روئے مبارک
تکتے سمے ہی چوم لیا تھا

زرد پتوں کو درختوں سے جدا ہونا ہی تھا

زرد پتوں کو درختوں سے جدا ہونا ہی تھا 
ہم کہ دریا ہیں سمندر کی غذا ہونا ہی تھا 
اور کب تک بے ثمر رکھتی خزاں پیڑوں کے ہاتھ 
رُت بدل جانا تھی یہ، جنگل ہرا ہونا ہی تھا 
روکنے سے کب ہوا کے نرم جھونکے رک سکے 
بند دروازوں کو اک دن نیم وا ہونا ہی تھا 

اے مہ ہجر کیا کہیں کیسی تھکن سفر میں تھی

اے مہِ ہجر کیا کہیں، کیسی تھکن سفر میں تھی 
روپ جو رہگزر میں تھے دھوپ جو رہگزر میں تھی 
لفظ کی شکل پر نہ جا، لفظ کے رنگ بھی سمجھ 
ایک خبر پسِ خبر آج کی ہر خبر میں تھی 
رات فصیلِ شہر میں ایک شگاف کیا ملا 
خون کی اک لکیر سی صبح نظر نظر میں تھی 

ناؤ خستہ بھی نہ تھی موج میں دریا بھی نہ تھا

ناؤ خستہ بھی نہ تھی موج میں دریا بھی نہ تھا 
پار اترتا تھا مگر تجھ پہ بھروسہ بھی نہ تھا 
زندگی ہاتھ نہ دے پائی مرے ہاتھوں میں 
ساتھ جانا بھی نہ تھا ہاتھ چھڑانا بھی نہ تھا 
جن پہ اک عمر چلا تھا انہی رستوں پہ کہیں 
واپس آیا تو مرا نقش کف پا بھی نہ تھا 

تھکن سے چور بدن دھول میں اٹا سر تھا

تھکن سے چور بدن دھول میں اٹا سر تھا 
میں جب گرا تو مرے سامنے مرا گھر تھا 
تہی ثمر شجر خواب کچھ نڈھال سے تھے 
زمیں پہ سوکھی ہوئی پتیوں کا بستر تھا 
اسی کی آب تھی اس شب میں روشنی کی لکیر 
وہ ایک شخص کہ جو کانچ سے بھی کمتر تھا 

Monday 13 November 2017

بات جو بھلی نہیں میں نے وہ کہی نہیں

بات جو بھلی نہیں
میں نے وہ کہی نہیں
اِک فریبِ زیست ہے
اور زندگی نہیں
آدمی کے دیس میں
کوئی آدمی نہیں

شکر ہے شیخ سے نہ کام رہا

شکر ہے شیخ سے نہ کام رہا
ان سے بس دور کا سلام رہا
جس پہ خود تھا صلیب کا سایہ
وہ مسیحائے خاص و عام رہا
میرے بس میں تھی جو بھی تبدیلی
اس میں کوشاں میں صبح و شام رہا

ڈھلا ہے حبس کا موسم ذرا تو

ڈھلا ہے حبس کا موسم ذرا تو
چلی ہے صبح سے کچھ کچھ ہوا تو
نشاں چھوڑا ہے اپنے در پہ میں نے 
دوبارہ لوٹنا مجھ کو پڑا تو
کہا میں نے کہ کل میں جا رہا ہوں
تامّل کے بغیر اس نے کہا، "تو" ؟

کچھ ایرے ہیں کچھ غیرے ہیں

کچھ ایرے ہیں، کچھ غیرے ہیں
کچھ نتھو ہیں، کچھ خیرے ہیں
کچھ جھوٹے ہیں، کچھ سچے ہیں
کچھ بڈھے ہیں، کچھ بچے ہیں
کچھ ململ ہیں، کچھ لٹھے ہیں
کچھ چیمے ہیں، کچھ چٹھے ہیں

دعائے نیم شبی

دعائے نِیم شبی

زورِ بیان و قوتِ اظہار چھین لے
مجھ سے مِرے خدا! مِرِے افکار چھین لے
کچھ بجلیاں اتار، قضا کے لباس میں
تاج و کُلاہ و جبّہ و دستار چھین لے
عِفت کے تاجروں کی دکانوں کوغرق کر
نظارہ ہائے گیسو و رخسار چھین لے

شکریہ؛ سوچتا ہوں کہ اسی قوم کے وارث ہم ہیں​

عارفانہ کلام منقبت سلام مرثیہ

شکریہ

سوچتا ہوں کہ اسی قوم کے وارث ہم ہیں​
جس نے اولاد پیمبر کا تماشا دیکھا​
جس نے سادات کے خیموں کی طنابیں توڑیں​
جس نے لختِ دل حیدر کو تڑپتا دیکھا​
برسرِ عام سکینہ کی نقابیں الٹیں​
لشکرِ حیدر کرار کو لٹتا دیکھا​

Sunday 12 November 2017

جفا پہ شکر کا امیدوار کیوں آیا

جفا پہ شکر کا امیدوار کیوں آیا 
مِری وفا کا اسے اعتبار کیوں آیا 
یہ دل کی بات ہی منہ سے ادا نہیں ہوتی 
میں کیا کہوں کہ یہاں بار بار کیوں آیا 
خیالِ پرسشِ محشر سے وہ ہوا مغموم 
نظر کے سامنے میرا مزار کیوں آیا 

لب چپ ہیں تو کیا دل گلہ پرداز نہیں ہے

لب چپ ہیں تو کیا دل گلہ پرداز نہیں ہے 
سب کچھ ہے خموشی میں اک آواز نہیں ہے 
کتنا ہی وہ جھڑکیں میں کہے جاتا ہوں اپنی 
غیرت مِری اب کچھ خلل انداز نہیں ہے 
پہونچوں گا ضرور آج میں اس شوخ کے گھر میں 
دیوار تو نیچی ہے جو در باز نہیں ہے 

فریاد اور تجھ کو ستم گر کہے بغیر

فریاد اور تجھ کو ستم گر کہے بغیر 
مانوں نہ حشر میں تِرے منہ پر کہے بغیر 
دیکھو یہ رنگ رخ کا شگوفہ کہ میرا عشق 
ظاہر ہوا ہے کہنے سے بڑھ کر کہے بغیر 
منہ دیکھتا ہی رہ گیا کہنے کو جب گیا 
پلٹا میں حالت دل مضطر کہے بغیر 

کبھی نغمہ غم آرزو کبھی زندگی کی پکار ہم

کبھی نغمۂ غمِ آرزو کبھی زندگی کی پکار ہم 
کبھی خاک کوچۂ یار ہم کبھی شہریارِ بہار ہم
کبھی چل پڑے تِری راہ میں تو حدِ جنوں سے گزر گئے 
تِرے انتظار میں ہو گئے کبھی نقش رہگزار ہم
ہمیں کشتگان حیات سے ہیں جنون عشق کی عظمتیں 
کبھی ہنس پڑے تہِ تیغ ہم کبھی جھوم اٹھے سرِ دار ہم

کہاں سے آ گیا کہاں یہ شام بھی کہاں ہوئی

کہاں سے آ گیا کہاں، یہ شام بھی کہاں ہوئی 
نہ ہم نفس نہ ہم زباں، یہ شام بھی کہاں ہوئی 
بجھی نظر، بجھے قدم، نہ راہبر، نہ ہمسفر 
نہ رہگزر نہ کارواں، یہ شام بھی کہاں ہوئی 
نہ شمعِ دل نہ شمعِ رُخ، نجومِ شب نہ ماہِ شب 
نگاہ و دل دھواں دھواں، یہ شام بھی کہاں ہوئی 

طلسم خواب میں خوف بلا سے کچھ نہیں ہو گا

طلسم خواب میں خوفِ بلا سے کچھ نہیں ہو گا
سزا سے اور فقط میری سزا سے کچھ نہیں ہو گا
تم اپنے گھر کے دروازے ہمیشہ بند ہی رکھنا
ہوا جیسی بھی ہو پیارے ہوا سے کچھ نہیں ہو گا
کوئی بھی بات ہو کیسی بھی ہو وہ کچھ نہیں ہوتی
ہمارے شہر میں اونچی صدا سے کچھ نہیں ہو گا

اگر تم بیچنا چاہو ادائیں بھی وفائیں بھی

اگر تم بیچنا چاہو 
ادائیں بھی وفائیں بھی 
حسیں خوابوں کے رنگوں کی ردائیں بھی 
یہ دنیا ہے 
یہاں آواز بکتی ہے 
یہاں تصویر بکتی ہے 

Friday 10 November 2017

تجھے اس لیے نکالا

تجھے اس لیے نکالا

تُو پوچھتا ہے تجھے ایسے کیوں نکالا گیا
تمہارا جرم فضاؤں میں کیوں اچھالا گیا
تِرا غرور عدالت میں کیسے ٹالا گیا
تمہارے جھوٹ کے سینے میں کس کا بھالا گیا
بتا دوں تجھ کو درندے تمہارے دانتوں سے
مِرے غریب کسانوں کا خوں ٹپکتا ہے

جہاں ہم ہیں

جہاں ہم ہیں

جہاں ہم ہیں
یہاں تو اعتراف درد بھی اک مسئلہ ٹھہرا
محبت کی سزاواری پشیمانی بنی
جور و ستم کی ہمقدم ہو کے
دلِ پامال کے اجڑے ہوئے رستوں پہ ایسے دندناتی ہے

گر دعا بھی کوئی چیز ہے تو دعا کے حوالے کیا

گر دعا بھی کوئی چیز ہے تو دعا کے حوالے کیا 
جا تجھے آج سے ہم نے اپنے خدا کے حوالے کیا 
ایک مدت ہوئی ہم نے دنیا کی ہر ایک ضد چھوڑ دی 
ایک مدت ہوئی ہم نے دل کو وفا کے حوالے کیا 
اس طرح ہم نے تیری محبت زمانے کے ہاتھوں میں دی 
جس طرح گل نے خوشبو کو باد صبا کے حوالے کیا 

Tuesday 7 November 2017

آنکھ سے بچھڑے کاجل کو تحریر بنانے والے

آنکھ سے بچھڑے کاجل کو تحریر بنانے والے 
مشکل میں پڑ جائیں گے تصویر بنانے والے 
یہ دیوانہ پن تو رہے گا دشت کے ساتھ سفر میں 
سائے میں سو جائیں گے زنجیر بنانے والے 
اس نے تو دیکھے اندیکھے خواب سبھی لوٹائے 
اور تھے شاید ٹوٹی ہوئی تعبیر بنانے والے 

بن میں ویراں تھی نظر شہر میں دل روتا ہے

بن میں ویراں تھی نظر شہر میں دل روتا ہے 
زندگی سے یہ مِرا دوسرا سمجھوتا ہے 
لہلہاتے ہوئے خوابوں سے مِری آنکھوں تک 
رت جگے کاشت نہ کر لے تو وہ کب سوتا ہے 
جس کو اس فصل میں ہونا ہے برابر کا شریک 
میرے احساس میں تنہائیاں کیوں بوتا ہے 

کہیں لوگ تنہا کہیں گھر اکیلے

کہیں لوگ تنہا کہیں گھر اکیلے 
کہاں تک میں دیکھوں یہ منظر اکیلے 
گلی میں ہواؤں کی سرگوشیاں ہیں 
گھروں میں مگر سب صنوبر اکیلے 
نمائش ہزاروں نگاہوں نے دیکھی 
مگر پھول پہلے سے بڑھ کر اکیلے 

یاد اشکوں میں بہا دی ہم نے

یاد اشکوں میں بہا دی ہم نے 
آ، کہ ہر بات بھلا دی ہم نے 
گلشن دل سے گزرنے کے لیے 
غم کو رفتارِ صبا دی ہم نے 
اب اسی آگ میں جلتے ہیں جسے 
اپنے دامن سے ہوا دی ہم نے 

Monday 6 November 2017

چاندنی نے رات کا موسم جواں جیسے کیا

چاندنی نے رات کا موسم جواں جیسے کیا 
ہم نے بھی چہرہ فروزاں شیشۂ مے سے کیا 
پاسِ خودداری تو ہے لیکن وفا دشمن نہیں 
تم  نے ہم پر ترکِ الفت کا گماں کیسے کیا 
ہم گناہوں کی شریعت سے ہوئے جب آشنا 
جسم نے جو فیصلہ جیسے دیا، ویسے کیا 

دیکھے کوئی جو چاک گریباں کے پار بھی

دیکھے کوئی جو چاک گریباں کے پار بھی 
آئینۂ خزاں میں ہے عکس بہار بھی 
اب ہر نفس ہے بھیگی صداؤں کی اک فصیل 
موجِ ہوس تھی گردشِ لیل و نہار بھی 
کیا شورشِ جنوں ہے، ذرا کم نہیں ہوا 
قربت کے باوجود تِرا انتظار بھی 

کیا عدو کیا دوست سب کو بھا گئیں رسوائیاں

کیا عدو کیا دوست سب کو بھا گئیں رسوائیاں 
کون آ کر ناپتا احساس کی پہنائیاں 
اب کسی موسم کی بے رحمی کا کوئی غم نہیں 
ہم نے آنکھوں میں سجائی ہیں تِری انگڑائیاں 
آپ کیا آئے بہاروں کے دریچے کھل گئے 
خوشبوؤں میں بس گئیں ترسی ہوئی تنہائیاں 

Friday 3 November 2017

دھیان کا جب بھی کوئی پٹ کھولا

آورد

دھیان کا جب بھی کوئی پٹ کھولا
"میری بات نہ کہہ" دل بولا
دل کی بات کہی بھی نہ جائے 
ضبط کی ٹیس سہی بھی نہ جائے 
نظم میں کس کا ذکر کروں اب
فکر میں ہوں کیا فکر کروں اب

جو تم کرو گے وہ ہم کریں گے

جو تم کرو گے وہ ہم کریں گے
(انقلابی شاعری)

ستم کرو  گے ستم کریں گے
کرم کرو گے کرم کریں گے
ہم آدمی ہیں تمھارے جیسے
جو تم کرو گے وہ ہم کریں گے

شہر آشوب

شہر آشوب

اپنی بود و باش نہ پوچھو
ہم سب بے توقیر ہوئے 
کون گریباں چاک نہیں ہے 
ہم ہوئے، تم ہوئے، میرؔ ہوئے
سہمی سہمی دیواروں میں
سایوں جیسے رہتے ہیں

رفوگر دھیان سے یہ زخم خنجر کے نہیں

رفوگر

رفوگر
دھیان سے
یہ زخم خنجر کے نہیں 
ادھڑے ہوئے وعدوں کی رسوائی کے ہیں 
انہیں چھونا نہیں 
اِن کی تہوں میں جھانک کر