Saturday 16 February 2019

وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے

وہ لوگ میرے بہت پیار کرنے والے تھے
گزر گئے ہیں جو موسم گزرنے والے تھے
نئی رُتوں میں دکھوں کے بھی سلسلے ہیں نئے
وہ زخم تازہ ہوئے ہیں جو بھرنے والے تھے
یہ کس مقام پہ سُوجھی تجھے بچھڑنے کی
کہ اب تو جا کہ کہیں دن سنورنے والے تھے

آنگن آنگن شمع خیال یار جلے

آنگن آنگن شمعِ خیالِ یار جلے
رات آئی اور لوگ ستارہ وار جلے
اس بستی کی رات بھی کتنی روشن ہے
بجھ جائیں گر دِیپ تو پہرے دار جلے
دِن بھر گہرا سناٹا رہتا ہے، مگر
شب بھر ایک چراغ پسِ دیوار جلے

ہوا دم سادھ لیتی ہے تو پھر ہو بولتے ہیں

ہوا دم سادھ لیتی ہے تو پھر ہُو بولتے ہیں
شجر یوں بولتے ہیں جیسے سادھو بولتے ہیں
تم اس کے شہر کو دو باتوں سے پہچان لینا
کہ گلیاں صاف ہیں اور لوگ اردو بولتے ہیں
تم آنکھوں سے جو کرتے ہو اسے کیا نام دیں ہم
ہمارے شہر میں تو اس کو جادُو بولتے ہیں

نہ دل کا اذن نہ دلدار کی اجازت ہے

نہ دل کا اذن نہ دلدار کی اجازت ہے
وگرنہ دین میں تو چار کی اجازت ہے
یہ شاہراہِ محبت ہے دھیرے دھیرے چل
یہاں بس اتنی ہی رفتار کی اجازت ہے
ہمارے شہر میں ہے منع عشق کا اظہار
یہ اور بات کہ ''اشعار'' کی اجازت ہے

یہی دعا ہے یہی ہے سلام عشق بخیر

یہی دعا ہے یہی ہے سلام عشق بخیر 
مِرے سبھی رفقائے کرام عشق بخیر
دیارِ ہجر کی سُونی اداس گلیوں میں 
پکارتا ہے کوئی صبح و شام عشق بخیر
میں کر رہا تھا دعا کی گزارشیں اس سے 
سو کہہ گئی ہے اداسی کی شام عشق بخیر

Friday 15 February 2019

میرے خلاف ابر کی سازش نہیں رکی

میرے خلاف، ابر کی سازش نہیں رکی
چھت گر پڑی ہے اور ابھی بارش نہیں رکی
چہرے تھے قتل گاہ کے چاروں طرف مگر
مقتول کے لہو کی نمائش نہیں رکی
دیکھا جو چور آنکھ سے اس نے مِری طرف
سینے میں ایک لمحے کو خواہش نہیں رکی

پیہم جب اضطراب سے سینہ دو چار تھا

پیہم جب اضطراب سے سینہ دو چار تھا
میں زندگی کی تازہ صفوں میں شمار تھا
موسم میں جان تھی نہ چمن پر نکھار تھا
جشنِ بہار اب کے خلافِ بہار تھا
یہ باغباں کے فیض سے پہلے کی بات ہے
ہر شاخ کے گلے میں گلابوں کا ہار تھا

میں سائبان سر پہ جو تانوں کرائے کا

میں سائبان سر پہ جو تانوں کرائے کا
اتنا بھی اشتیاق نہیں مجھ کو سائے کا
مفہومِ عافیت کو سمجھنے کے باوجود
حق چاہتی ہے خامشی، اظہارِ رائے کا
آہنگ و صوت سے ہے مبرا مِرا سخن
خود خامشی ہے اب مِری غزلوں کی گائیکا

قلم کی نوک جہاں کامیاب ٹھہرے گی

قلم کی نوک جہاں کامیاب ٹھہرے گی
لہو لکیر، خطِان قلاب ٹھہرے گی
کبھی تو ہجر زدوں کا نصیب جاگے گا
کبھی تو آنکھ گنہگارِ خواب ٹھہرے گی
کسی کے ہاتھ تو لگنا ہے اشکِ خونیں کو
کسی کنارے تو شاخِ گلاب ٹھہرے گی

آنکھوں میں رات کٹ گئی پلکوں پہ دن بتائیے

آنکھوں میں رات کٹ گئی پلکوں پہ دن بِتائیے
مہلت ملی ہے عمر کی دولت کہیں لٹائیے
حدِ ادب کی بات تھی، حدِ ادب میں رہ گئی
میں نے کہا کہ میں چلا، اس نے کہا کہ جائیے
مٹتے ہوۓ نشان میں منزل کی سمت ہے سو اب
بجھتے ہوئے چراغ سے، اپنا دِیا جلائیے

ساحل کا ظرف ہے نہ سمندر کی چیز ہے

ساحل کا ظرف ہے نہ سمندر کی چیز ہے
دراصل خامشی مِرے اندر کی چیز ہے
جیسے ہر ایک ٹوٹتی شے ہے مِرا وجود
جیسے یہ کائنات مِرے گھر کی چیز ہے
کیا کیا نہ راہ کاٹ کےآتا ہے وصل کو
دریا کے پاس کوئی سمندر کی چیز ہے

بڑھا لے اپنی سواری نہ اب دکان لگا

بڑھا لے اپنی سواری نہ اب دکان لگا 
وہ صور پھونک رہا ہے زمیں سے کان لگا
بدن کی قید سے باہر نکلنا ہے تجھ کو
پہاڑ کاٹنا مشکل ہے دوست، جان لگا
سلگتی ریت پہ آ کر گِرا وجود اس کا
وہ تیغ کھینچ رہا تھا کہ تیر آن لگا

ریت مٹھی میں بھری پانی سے آغاز کیا

ریت مُٹھی میں بھری پانی سے آغاز کیا 
سخت مشکل میں تھا آسانی سے آغاز کیا 
مجھ کو مٹی سے بدن بنتے ہوۓ عمر لگی 
میری تعمیر نے ویرانی سے آغاز کیا 
یہ جہانوں کا، زمانوں کا، مکانوں کا سفر 
غیب نے لفظ سے یا معنی سے آغاز کیا 

بکھرنے کا سبب مٹی پہ لکھتا جا رہا ہوں

بکھرنے کا سبب مٹی پہ لکھتا جا رہا ہوں
میں تہذیبِ ادب مٹی پہ لکھتا جا رہا ہوں
سحر ہو گی تو شاید جاگنے والے پڑھیں گے
میں قصہ ہائے شب مٹی پہ لکھتا جا رہا ہوں
ورق سونے کے مجھ کو کس نے دینے تھے کہ دیتا
سو اپنے خواب سب مٹی پہ لکھتا جا رہا ہوں

Wednesday 6 February 2019

کیا بات ہے اے جان سخن بات کئے جا

کیا بات ہے اے جان سخن بات کیے جا 
ماحول پہ نغمات کی برسات کیے جا 
دنیا کی نگاہوں میں بڑی حرص بھری ہے 
نا اہل زمانے سے حجابات کیے جا 
نیکی کا ارادہ ہے تو پھر پوچھنا کیسا 
دن رات فقیروں کی مدارات کیے جا 

بہت سے لوگوں کو غم نے جلا کے مار دیا

بہت سے لوگوں کو غم نے جلا کے مار دیا 
جو بچ رہے تھے انہیں مے پلا کے مار دیا 
یہ کیا ادا ہے کہ جب ان کی برہمی سے ہم 
نہ مر سکے تو ہمیں مسکرا کے مار دیا 
نہ جاتے آپ تو آغوش کیوں تہی ہوتی 
گئے تو آپ نے پہلو سے جا کے مار دیا 

آج پھر روح میں اک برق سی لہراتی ہے

آج پھر روح میں اک برق سی لہراتی ہے 
دل کی گہرائی سے رونے کی صدا آتی ہے 
یوں چٹکتی ہیں خرابات میں جیسے کلیاں 
تشنگی ساغرِ لبریز سے ٹکراتی ہے 
شعلۂ غم کی لپک اور مرا نازک سا مزاج 
مجھ کو فطرت کے رویے پہ ہنسی آتی ہے 

مرا اخلاص بھی اک وجہ دلآزاری ہے

مِرا اخلاص بھی اک وجہِ دل آزاری ہے 
بندہ پرور مجھے احساسِ گنہ گاری ہے 
آپ اذیت کا بناتے ہیں جو خوگر مجھ کو 
اس سے بہتر بھلا کیا صورتِ غمخواری ہے
محض تسکین برآری کے بہانے ہیں سب 
میں تو کہتا ہوں محبت بھی ریاکاری ہے