آج پھر روح میں اک برق سی لہراتی ہے
دل کی گہرائی سے رونے کی صدا آتی ہے
یوں چٹکتی ہیں خرابات میں جیسے کلیاں
تشنگی ساغرِ لبریز سے ٹکراتی ہے
شعلۂ غم کی لپک اور مرا نازک سا مزاج
موت اک امرِ مسلّم ہے تو پھر اے ساقی
روح کیوں زیست کے آلام سے گھبراتی ہے
سو بھی جا اے دلِ مجروح! بہت رات گئی
اب تو رہ رہ کے ستاروں کو بھی نیند آتی ہے
اور تو دل کو نہیں ہے کوئی تکلیف عدمؔ
ہاں ذرا نبض کسی وقت ٹھہر جاتی ہے
عبدالحمید عدم
No comments:
Post a Comment