Wednesday, 6 February 2019

بہت سے لوگوں کو غم نے جلا کے مار دیا

بہت سے لوگوں کو غم نے جلا کے مار دیا 
جو بچ رہے تھے انہیں مے پلا کے مار دیا 
یہ کیا ادا ہے کہ جب ان کی برہمی سے ہم 
نہ مر سکے تو ہمیں مسکرا کے مار دیا 
نہ جاتے آپ تو آغوش کیوں تہی ہوتی 
گئے تو آپ نے پہلو سے جا کے مار دیا 
مجھے گلہ تو نہیں آپ کے تغافل سے 
مگر حضور نے ہمت بڑھا کے مار دیا 
نہ آپ آس بندھاتے نہ یہ ستم ہوتا 
ہمیں تو آپ نے امرت پلا کے مار دیا 
کسی نے حسن تغافل سے جاں طلب کر لی 
کسی نے لطف کے دریا بہا کے مار دیا 
جسے بھی میں نے زیادہ تپاک سے دیکھا 
اسی حسین نے پتھر اٹھا کے مار دیا 
وہ لوگ مانگیں گے اب زیست کس کے آنچل سے 
جنہیں حضور نے دامن چھڑا کے مار دیا 
چلے تو خندہ مزاجی سے جا رہے تھے ہم 
کسی حسین نے رستے میں آ کے مار دیا 
رہِ حیات میں کچھ ایسے پیچ و خم تو نہ تھے 
کسی حسین نے رستے میں آ کے مار دیا 
عجیب رس بھرا رہزن تھا جس نے لوگوں کو 
طرح طرح کی ادائیں دکھا کے مار دیا 
عدمؔ بڑے ادب آداب سے حسینوں نے 
ہمیں ستم کا نشانہ بنا کے مار دیا 

عبدالحمید عدم

No comments:

Post a Comment