ہوا دم سادھ لیتی ہے تو پھر ہُو بولتے ہیں
شجر یوں بولتے ہیں جیسے سادھو بولتے ہیں
تم اس کے شہر کو دو باتوں سے پہچان لینا
کہ گلیاں صاف ہیں اور لوگ اردو بولتے ہیں
تم آنکھوں سے جو کرتے ہو اسے کیا نام دیں ہم
انہی کے مُوڈ پر ہے منحصر طرزِ تخاطب
کبھی وہ آپ کہتے ہیں، کبھی تُو بولتے ہیں
اچانک اڑ گئی جب سے تِری یادوں کی کوئل
شبستانِ غزل میں تب سے اُلو بولتے ہیں
الف بے کے بجاۓ اس میں ہوتے ہیں خدوخال
سمجھتا ہوں بدن بولی جو خوشرُو بولتے ہیں
رحمان فارس
No comments:
Post a Comment