بکھرنے کا سبب مٹی پہ لکھتا جا رہا ہوں
میں تہذیبِ ادب مٹی پہ لکھتا جا رہا ہوں
سحر ہو گی تو شاید جاگنے والے پڑھیں گے
میں قصہ ہائے شب مٹی پہ لکھتا جا رہا ہوں
ورق سونے کے مجھ کو کس نے دینے تھے کہ دیتا
چمکتی نیل آنکھیں جھیل پر تحریر کر دیں
دہکتے سرخ لب مٹی پہ لکھتا جا رہا ہوں
ستارہ ٹوٹنے والا نہ ٹوٹا اور ٹوٹا
کوئی نظم عجب مٹی پہ لکھتا جا رہا ہوں
ہمارے بیچ پڑنے والی ان صدیوں کا نوحہ
مجھے لکھنا ہے کب مٹی پہ لکھتا جا رہا ہوں
جنونی رقص میں ہوں اور تلوے جل رہے ہیں
طرب ہے یا تعب؟ مٹی پہ لکھتا جا رہا ہوں
دانیال طریر
No comments:
Post a Comment