Friday, 15 February 2019

میرے خلاف ابر کی سازش نہیں رکی

میرے خلاف، ابر کی سازش نہیں رکی
چھت گر پڑی ہے اور ابھی بارش نہیں رکی
چہرے تھے قتل گاہ کے چاروں طرف مگر
مقتول کے لہو کی نمائش نہیں رکی
دیکھا جو چور آنکھ سے اس نے مِری طرف
سینے میں ایک لمحے کو خواہش نہیں رکی
اک اجنبی قریب سے گزرا کل اس طرح
میں لڑکھڑا گیا، مِری لغزش نہیں رکی
بیدلؔ لہو لکھائی سے روکا گیا مجھے
لیکن مِرے قلم کی نگارش نہیں رکی

بیدل حیدری

No comments:

Post a Comment