Thursday 30 August 2012

نہ انتظار کی لذت نہ آرزو کی تھکن

نہ انتظار کی لذّت، نہ آرزو کی تھکن
بُجھی ہیں درد کی شمعیں کہ سو گیا بدن
سُلگ رہی ہیں نہ جانے کس آنچ سے آنکھیں
نہ آنسوؤں کی طلب ہے نہ رتجگوں کی جلن
دلِ فریب زدہ! دعوتِ نظر پہ نہ جا
یہ آج کے قدوگیسُو ہیں کل کے دار و رسن

یہی بہت ہے کہ محفل میں ہم نشیں کوئی ہے

یہی بہت ہے کہ محفل میں ہم نشِیں کوئی ہے
کہ شب ڈھلے تو سحر تک کوئی نہیں کوئی ہے
نہ کوئی چاپ، نہ سایہ کوئی، نہ سرگوشی
“مگر یہ دل کہ بضد ہے، “نہیں نہیں کوئی ہے
یہ ہم کہ راندۂ افلاک تھے، کہاں جاتے؟
یہی بہت ہے کہ پاؤں تلے زمِیں کوئی ہے

یہ دل کا چور کہ اس کی ضرورتیں تھیں بہت

یہ دل کا چور کہ اس کی ضرُورتیں تھیں بہت
وگرنہ ترکِ تعلّق کی صُورتیں تھیں بہت
مِلے تو ٹُوٹ کے روئے نہ کھل کے باتیں کیں
کہ جیسے اب کہ دلوں میں کدُورتیں تھیں بہت
بھلا دیئے ہیں تیرے غم نے دُکھ زمانے کے
خُدا نہیں تھا تو پتّھر کی مُورتیں تھیں بہت

Tuesday 28 August 2012

ہم تو یوں خوش تھے کہ اک تار گریبان میں ہے

ہم تو یُوں خُوش تھے کہ اِک تار گریبان میں ہے
کیا خبر تھی کہ بہار اُس کے بھی ارمان میں ہے
ایک ضرب اور بھی اے زندگئ تیشہ بدست
سانس لینے کی سکت اب بھی مِری جان میں ہے
میں تُجھے کھو کے بھی زندہ ہوں یہ دیکھا تُو نے
کس قدر حوصلہ ہارے ہوئے انسان میں ہے

سن بھی اے نغمہ سنج کنج چمن اب سماعت کا اعتبار کسے

سُن بھی اے نغمہ سنجِ کنجِ چمن اب سماعت کا اعتبار کِسے
کون سا پیرہن سلامت ہے، دیجیے دعوتِ بہار کِسے
جل بُجھیں دردِ ہجر کی شمعیں، گُھل چکے نیم سوختہ پیکر
سر میں سودائے خام ہو بھی تو کیا، طاقت و تابِ انتظار کِسے
نقدِ جاں بھی تو نذر کر آئے اور ہم مُفلسوں کے پاس تھا کیا
کون ہے اہلِ دل میں اتنا غنی، اس قدر پاسِ طبعِ یار کِسے

دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے

دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے
زمینِ چمن، گل کھِلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
تمہارے شہیدوں میں داخل ہوئے ہیں
گُل و لالہ و ارغواں کیسے کیسے

ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے

ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
تری بانکی چتون نے چُن چُن کے مارے
نکیلے سجیلے جواں کیسے کیسے
نہ گُل ہیں نہ غُنچے نہ بُوٹے نہ پتّے
ہوئے باغ نذرِ خزاں کیسے کیسے

Sunday 26 August 2012

کبھی لہریں ترا چہرہ جو بنانے لگ جائیں

کبھی لہریں ترا چہرہ جو بنانے لگ جائیں
میری آنکھیں مُجھے دریا میں بہانے لگ جائیں
کبھی اِک لمحۂ فُرصت جو میسّر آ جائے
میری سوچیں مُجھے سُولی پہ چڑھانے لگ جائیں
انتظار اس کا نہ اتنا بھی زیادہ کرنا
کیا خبر، برف پِگھلنے میں زمانے لگ جائیں

میری داستان الم تو سن کوئی زلزلہ نہیں آئے گا

میری داستانِ اَلم تو سُن، کوئی زلزلہ نہیں آئے گا
میرا مُدعا نہیں آئے گا، تیرا تذکرہ نہیں آئے گا
میری زندگی کے النگ میں کئی گھاٹیاں کئی موڑ ہیں
تیری واپسی بھی ہوئی اگر تُجھے راستہ نہیں آئے گا
اگر آئے دن تیری راہ میں تیری کھوج میں تیری چاہ میں
یونہی قافلے کہ جو لُٹ گئے، کوئی قافلہ نہیں آئے گا

Saturday 25 August 2012

زندگی یوں تھی کہ جینے کا بہانہ تو تھا

زندگی یُوں تھی کہ جینے کا بہانہ تُو تھا
ہم فقط زیبِ حکایت تھے، فسانہ تُو تھا
ہم نے جس جس کو بھی چاہا تیرے ہجراں میں، وہ لوگ
آتے جاتے ہوئے موسم تھے، زمانہ تُو تھا
اب کے کچھ دل ہی نہ مانا کہ پلٹ کر آتے
ورنہ ہم دربدروں کا ٹھکانہ تُو تھا

ایسے چپ ہیں کہ یہ منزل بھی کڑی ہو جیسے

ایسے چُپ ہیں کہ یہ منزل بھی کڑی ہو جیسے
تیرا ملنا بھی جُدائی کی گھڑی ہو جیسے
اپنے ہی سائے سے ہر گام لرز جاتا ہوں
راستے میں کوئی دیوار کھڑی ہو جیسے
کتنے ناداں ہیں تِرے بُھولنے والے کہ تُجھے
یاد کرنے کے لیے عمر پڑی ہو جیسے

اپنی محبت کے افسانے کب تک راز بناؤ گے

اپنی محبت کے افسانے، کب تک راز بناؤ گے
رُسوائی سے ڈرنے والو! بات تُمہی پھیلاؤ گے
اُس کا کیا ہے تم نہ سہی تو چاہنے والے اور بہت
ترکِ محبت کرنے والو! تم تنہا رہ جاؤ گے
ہجر کے ماروں کی خُوش فہمی، جاگ رہے ہیں پہروں سے
جیسے یُوں شب کٹ جائے گی، جیسے تم آ جاؤ گے

جو سر بھی کشیدہ ہو اسے دار کرے ہے

جو سر بھی کشِیدہ ہو اُسے دار کرے ہے
اغیار تو کرتے تھے سو اب یار کرے ہے
وہ کون سِتمگر تھے کہ یاد آنے لگے ہیں
تُو کیسا مسیحا ہے، کہ بیمار کرے ہے
اب روشنی ہوتی ہے کہ گھر جلتا ہے دیکھیں
شُعلہ سا طوافِ در و دیوار کرے ہے

یوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے

یُوں تو کہنے کو بہت لوگ شناسا میرے
کہاں لے جاؤں تُجھے اے دلِ تنہا میرے
وہی محدود سا حلقہ ہے شناسائی کا
یہی احباب مِرے ہیں، یہی اعداء میرے
میں تہِ کاسہ و لب تشنہ رہوں گا کب تک
تیرے ہوتے ہوئے، اے صاحبِ دریا میرے

تیرا غم اپنی جگہ دنیا کے غم اپنی جگہ

تیرا غم اپنی جگہ، دُنیا کے غم اپنی جگہ
پِھر بھی اپنے عہد پر قائم ہیں ہم اپنی جگہ
کیا کریں، یہ دل کسی کی ناصحا! سُنتا نہیں
آپ نے جو کُچھ کہا اے محترم! اپنی جگہ
ہم مؤحد ہیں، بُتوں کے پُوجنے والے نہیں
پر خُدا لگتی کہیں، تو وہ صنم اپنی جگہ

آنسو نہ روک دامن زخم جگر نہ کھول

آنسو نہ روک، دامنِ زخمِ جگر نہ کھول
جیسا بھی حال ہو، نگہِ یار پر نہ کھول
جب شہر لُٹ گیا ہے، تو کیا گھر کو دیکھنا
کل آنکھ نَم نہیں تھی تو اب چشمِ تَر نہ کھول
چاروں طرف ہیں دامِ شنیدن، بِچھے ہوئے
غفلت میں طائرانِ معانی کے پَر نہ کھول

ہم کو تو انتظار سحر بھی قبول ہے

ہم کو تو انتظارِ سحر بھی قبُول ہے
لیکن شبِ فراق! ترا کیا اصُول ہے
اے ماہِ نِیم شب! تری رفتار کے نثار
یہ چاندنی نہیں ترے قدموں کی دھُول ہے
کانٹا ہے وہ، کہ جس نے چمن کو لہُو دیا
خُونِ بہار جس نے پِیا ہے، وہ پُھول ہے

راہوں پہ نظر رکھنا ہونٹوں پہ دعا رکھنا

گیت

راہوں پہ نظر رکھنا ہونٹوں پہ دُعا رکھنا
آ جائے کوئی شاید، دروازہ کُھلا رکھنا
احساس کی شمع کو، اِس طرح جلا رکھنا
اپنی بھی خبر رکھنا، اُس کا بھی پتہ رکھنا
راتوں کو بھٹکنے کی دیتا ہے سزا مُجھ کو
دُشوار ہے پہلُو میں، دل تیرے بِنا رکھنا

پھول بن کر تری ہر شاخ پہ کھلتا میں تھا

پھول بن کر تِری ہر شاخ پہ کھلتا میں تھا
خُوشبوئیں تُجھ میں اُترتی تھیں، مہکتا میں تھا
میری سانسوں میں گھُلی تھیں تِری صُبحیں شامیں
تیری یادوں میں گُزرتا ہوا عرصہ میں تھا
شور تھا جیسے سمندر میں ہو گِرتا دریا
اور جب غور سے دیکھا تو اکیلا میں تھا

تو معمہ ہے تو حل اس کو بھی کرنا ہے مجھے

تُو مُعمہ ہے تو حل اس کو بھی کرنا ہے مُجھے
تُو سمندر ہے تو پھر تہ میں اترنا ہے مجھے
تُو نے سوچا تھا کہ جلووں سے بہل جاؤں گا
ایسے کتنے ہی سرابوں سے گزرنا ہے مُجھے
قہر جتنا ہے تیری آنکھ میں برسا دے، مگر
اسی گرداب میں پھنس کر تو ابھرنا ہے مجھے

زمانہ خوش کہاں ہے سب سے بے نیاز کر کے بھی

زمانہ خُوش کہاں ہے سب سے بے نیاز کر کے بھی
چراغِ جاں کو نذرِ بادِ بے لحاظ کر کے بھی
غُلام گردشوں میں ساری عُمر کاٹ دی گئی
حصولِ جاہ کی روش پہ اعتراض کر کے بھی
خجل ہوئی ہیں قیامتیں، قیامتوں کے زعم میں
مذاق بن کے رہ گئیں ہیں قد دراز کر کے بھی

خزانہ زر و گوہر پہ خاک ڈال کے رکھ

خزانۂ زر و گوہر پہ خاک ڈال کے رکھ
ہم اہلِ مہر و محبت ہیں، دل نکال کے رکھ
ہمیں تو اپنے سمندر کی ریت کافی ہے
تُو اپنے چشمۂ بے فیض کو سنبھال کے رکھ
ذرا سی دیر کا ہے یہ عروجِ مال و منال
ابھی سے ذہن میں سب زاویے زوال کے رکھ

یہ کیا کہ خاک ہوئے ہم جہاں وہیں کے نہیں

یہ کیا کہ خاک ہوئے ہم جہاں، وہیں کے نہیں
جو ہم یہاں کے نہیں ہیں تو پِھر کہیں کے نہیں
وفا سرشت میں ہوتی، تو سامنے آتی
وہ کیا فلک سے نبھائیں گے جو زمیں کے نہیں
ہوا کی گرم خرامی سے پڑ رہے ہیں بھنور
یہ پیچ و تاب کسی موجِ تِہ نشیں کے نہیں

Thursday 23 August 2012

جوگی

جوگی

دیر ہوئی، جب میں چھوٹا سا اِک بچہ تھا
راہ میں مُجھ کو ایک جوگی نے روکا تھا
“تیرے ہاتھ کی ریکھا دیکھنا چاہتا ہوں
ماتھے پہ تیرے جو لِکھا ہے، وہ دیکھنا چاہتا ہوں“
یہ کہہ کر تھام لی اُس نے، میری ہتھیلی
جیسے بُوجھے کوئی پہیلی

فردا

فردا

ہاری ہوئی رُوحوں میں
اِک وہم سا ہوتا ہے
تم خُود ہی بتا دو نا
سجدوں میں دَھرا کیا ہے؟
اِمروز حقیقت ہے
فردا کی خُدا جانے

فروگذاشت

فروگذاشت

درد رُسوا نہ تھا زمانے میں
دل کی تنہائیوں میں بستا تھا
حرفِ ناگُفتہ تھا، فسانۂ دل
ایک دن جو اُنہیں خیال آیا
پُوچھ بیٹھے“ اداس کیوں ہو تم؟“
“بس یُونہی“ مسکرا کے میں نے کہا

موسم وصال کا گیت

موسمِ وصال کا گیت 

لال کپڑوں میں آ
دھوپ کے کیسری بھیس میں
من کے سندیس میں
بن کے سورج مُکھی
آنکھ میں لہلہا
لال کپڑوں میں آ
لال کپڑوں میں آ

لمحہ لمحہ ہر اشارے پر سفر ہوتا رہا

لمحہ لمحہ ہر اشارے پر سفر ہوتا رہا
راستے بنتے گئے میں منتشر ہوتا رہا
ڈھونڈتے ہو تم کہاں اس روز و شب کے درمیاں
تھا زمانہ اور جو مجھ میں بسر ہوتا رہا
شہر والے اپنے سائیوں میں سمٹ کر سو گئے
چاند شب بھر ساتھ میرے در بدر ہوتا رہا

تو رنگ ہے غبار ہیں تیری گلی کے لوگ

تُو رنگ ہے، غُبار ہیں تیری گلی کے لوگ
تُو پُھول ہے، شرار ہیں تیری گلی کے لوگ
تُو رونقِ حیات ہے، تُو حُسنِ کائنات
اُجڑا ہوا دیار ہیں تیری گلی کے لوگ
تُو پیکرِ وفا ہے، مجسّم خلوص ہے
بدنام روزگار ہیں تیری گلی کے لوگ

ہم مسافر ہیں میری جان

ہم مسافر ہیں میری جان 

ہم مسافر ہیں میری جان مسافر تیرے
ہم تو بارش سے بھی ڈر جاتے ہیں
اور دھوپ سے بھی
اپنے قدموں کے نشانوں سے مِٹائیں جو لہو کے دھبے
راستے غصے میں آ جاتے ہیں

سوہنی دھیان

سوہنی دھیان

تم ہی بتاؤ
اس نے ان کچّے خوابوں کے بَل پر تیرنا کب سیکھا تھا؟
چڑھتے جوبن کے ساحل پر
اِک باغی خواہش کا موسم
اس کو پاگل کر دیتا تھا

اے غزال شب

اے غزالِ شب

اے غزالِ شب
تیری پیاس کیسے بجھاؤں میں
کہ دکھاؤں میں وہ سراب، جو میری جاں میں ہے
وہ سراب ساحرِ خوف ہے
جو سحر سے شام کے رہگزر میں

Wednesday 22 August 2012

جو ہمسفر تھے ہوئے گرد راہ سب میرے

جو ہمسفر تھے، ہوئے گردِ راہ سب میرے
کہ سیفؔ ولولے تھے بے پناہ سب میرے
کچھ اِس طرح مری فردِ عمل کی ہے تقسیم
ثواب آپ کے سارے، گُناہ سب میرے
سُنے گا کوئی نہ میری سرِ عدالتِ ناز
اُسی کی بات کریں گے گواہ سب میرے

سب منتظر ہیں وار کوئی دوسرا کرے

سب مُنتظر ہیں وار کوئی دُوسرا کرے
مُنہ زور کو شکار کوئی دوسرا کرے
وحشت ملے نہ اُس کی کبھی دیکھنے کو بھی
آنکھیں بھی اُس سے چار کوئی دوسرا کرے
ہر شخص چاہتا ہے اُسے ہو سزائے جُرم
پر اس کو سنگسار کوئی دوسرا کرے

میں اس سے چاہتوں کا ثمر لے کے آ گیا

میں اس سے چاہتوں کا ثمر لے کے آ گیا
آنکھوں میں آنسوؤں کے گُہر لے کے آ گیا
دیکھو تو کیسے چاند کی انگلی پکڑ کے میں
اس شوخ سے مِلن کی سحر لے کے آ گیا
کس زعم میں نجانے، منانے گیا اسے
تہمت سی ایک، اپنے ہی سر لے کے آ گیا

کیا بھروسا ہے انہیں چھوڑ کے لاچار نہ جا

کیا بھروسا ہے اِنہیں چھوڑ کے لاچار نہ جا
بِن ترے مر ہی نہ جائیں ترے بیمار، نہ جا
مُجھ کو روکا تھا سبھی نے کہ ترے کُوچے میں
جو بھی جاتا ہے، وہ ہوتا ہے گرفتار، نہ جا
ناخدا سے بھی مراسم نہیں اچھے تیرے
اور ٹُوٹے ہوئے کشتی کے بھی پتوار، نہ جا

ہم نے ترے ملال سے رشتہ بحال کر لیا

ہم نے ترے ملال سے رِشتہ بحال کر لیا
سارا جہاں بھلا دیا، تیرا خیال کر لیا
شہرِ غمِ جہاں میں تھے سو سو طرح کے غم، مگر
ہم نے پسند جانِ جاں! تیرا ملال کر لیا
تیرے بھی لَب ہِلّے نہیں، میرے بھی لَب ہِلّے نہیں
تُو نے جواب دے دیا، میں نے سوال کر لیا

راستہ بدلنے تک

راستہ بدلنے تک

اوٹ میں محبت کی
چُھپ کے وار کرنے کا
اِس قدر مہارت سے
کھیل اُس نے کھیلا تھا
بے خبر رہا ہوں میں
اَنت چال چلنے تک
راستہ بدلنے تک

اس سنگ سے بھی پھوٹی ہے کیا آبشار دیکھ

اس سنگ سے بھی پھوٹی ہے کیا آبشار دیکھ
آنکھیں نہ موند، اس کو ذرا اشکبار دیکھ
وابستہ تیرے ساتھ ہیں اِس دل کی دھڑکنیں
کتنا ہے دِل پہ میرے تجھے اختیار دیکھ
ہوتا نہیں ہے یہ بھی تری یاد میں مُخل
زنجیر ہو گیا ہے غمِ روزگار دیکھ

وائرس

وائرس

دِل میں رہتے ہیں، چاٹتے ہیں لہُو
رَفتہ رَفتہ یہ کرتے رہتے ہیں
کھوکھلی جسم و جاں کی دِیواریں
جس طرح چاٹ لیتی ہے دِیمک
سبز اشجار کی جواں لکڑی
وائرس ہیں یہ دِل کے اَرماں بھی

صغیر صفی

بے بسی

بے بسی

کھیل ہے مقدر کا
مِلنا اور بِچھڑ جانا
زِیست کی جو گاڑی ہے
یہ تو بس مقدّر کے
راستوں پہ چلتی ہے
راستے جُدا سب کے
منزلیں الگ سب کی

ضد

ضِد

تم نے کہا تھا
یاد ہے تم کو
کہ بہت بولتے ہو تم
بس اُس دن سے
میں نے اِن ہونٹوں پر تیرے
پیار کے قُفل لگا رکھے ہیں
بولو کیا تم کھول سکو گی

صغیر صفی

تفریق

تفریق

بڑے لوگوں کے اِن اونچے چمکتے دِلنشیں بنگلوں کی
بنیادوں میں کس کا خون شامل ہے
بڑے لوگوں کی گاڑی میں
صفی پٹرول کے بدلے، یہ کس کا خون جلتا ہے
یہ مِلّیں، کارخانے کتنوں کے ارماں
دھوئیں کے سنگ اڑاتے ہیں

سادگی

سادگی

ہم تُجھ کو بھلانے نِکلے تھے
اِس کوشش میں ہم نے اپنی
جس شہر میں تیرا ڈیرہ تھا
اُس شہر کا رَستہ چھوڑ دیا
جو تیری باتیں کرتا تھا
مُنہ، ہر اُس شخص سے موڑ لیا

یہاں بھی اک دن بہار ہو گی

(مقبوضہ کشمیر میں جاری جنگِ آزادی کے پس منظر میں لِکھی گئی نظم)

یہاں بھی اِک دن بہار ہو گی

یہ رات دن تم جو جبر موسم میں صبر کے گُل کِھلا رہے ہو
یہ جو صلیبوں کے سائے میں تم وطن کے نغمے سُنا رہے ہو
یہ اپنے شانوں پہ، اپنے پیاروں کے لاشے تم جو اُٹھا رہے ہو
کہ بِیج بو کے لہُو کے لوگو! رہائی کے گُل کِھلا رہے ہو
وطن کی مٹّی میں پُھول اِک دن محبتوں کے کِھلیں گے آخر
جُدا جُدا گر ہیں آج ہم تو ضرور کل کو مِلیں گے آخر

کئی اور دکھ ہیں مجھ کو

کئی اور دکھ ہیں مجھ کو

یہ جو چاہتوں کے سپنے
مری آنکھ میں مَرے ہیں
کئی نقش اُن کے آخر
مرے دِل میں رہ گئے ہیں
یہ کدُورتوں کے گھاؤ
مَیں کہاں تلک بھلاؤں

Tuesday 21 August 2012

اندر سے کوئی گھنگھرو چھنکے کوئی گیت سنیں تو لکھیں بھی

اندر سے کوئی گھنگھرو چھَنکے کوئی گیت سنیں تو لِکھیں بھی
ہم دھیان کی آگ میں تپتے ہیں کچھ اور تپیں تو لِکھیں بھی
یہ لوگ بے چارے کیا جانیں کیوں ہم نے حرف کا جوگ لیا
اس راہ چلیں تو سمجھیں بھی، اس آگ جلیں تو لِکھیں بھی
دن رات ہوئے ہم وقفِ رفُو، اب کیا محفل، کیا فکرِ سخن
یہ ہات رُکیں تو سوچیں بھی، یہ زخم سِلیں تو لِکھیں بھی

دیکھ ہمارے ماتھے پر یہ دَشت طلب کی دھول میاں

دیکھ ہمارے ماتھے پر، یہ دَشتِ طلب کی دُھول میاں
ہم سے عجب ترا درد کا ناتا، دیکھ ہمیں مت بُھول میاں
اہلِ وفا سے بات نہ کرنا، ہو گا ترا اصُول میاں
ہم کیوں چھوڑیں ان گلیوں کے پھیروں کا معمُول میاں
یُونہی تو نہیں دَشت میں پہنچے، یُونہی تو نہیں جوگ لیا
بستی بستی کانٹے دیکھے، جنگل جنگل پُھول میاں

Saturday 18 August 2012

ذکر جہلم کا ہے بات ہے دینے کی

ذِکر جہلم کا ہے، بات ہے دِینے کی
چاند پُکھراج کا، رات پشمینے کی
کیسے اوڑھے گی اُدھڑی ہوئی چاندی
رات کوشش میں ہے چاند کو سِینے کی
کوئی ایسا گِرا ہے نظر سے، کہ بس
ہم نے صُورت نہ دیکھی پِھر آئینے کی

Friday 17 August 2012

رات کا پچھلا پہر ہے اور میں

رات کا پچھلا پہر ہے اور میں
جاگتا سوتا نگر ہے اور میں
میں کہ سنگ آسا ہُوا ہوں دوستو
کیسے جادو کا اثر ہے اور میں
حکم ہے جرعہ کشی کا دیکھئے
زہر لب پر قدح بھر ہے اور میں

کھوٹ اپنی کہہ سکیں جس سے کوئی ایسا بھی ہو

کھوٹ اپنی کہہ سکیں جس سے کوئی ایسا بھی ہو
ہم تو پتھر ہیں، سفر میں اک عدد شِیشہ بھی ہو
بے تعلق شخص سے بہتر ہے وہ ساتھی مرا
غم میں جو ہنستا بھی ہو، تسکِیں مگر دیتا بھی ہو
یاد کچھ آتا نہیں، ہم نے اسے دیکھا کہاں؟
کیا خبر وہ خود بھی ہو، تصویر کا چہرہ بھی ہو

آنکھوں سے رنگ پھول سے خوشبو جدا رہے

آنکھوں سے رنگ، پھول سے خوشبو جدا رہے
روٹھی رہے حیات، وہ جب تک خفا رہے
اتنے قریب آ کہ نہ کچھ فاصلہ رہے
سانسوں کے ماسوا نہ کوئی سِلسلہ رہے
دستک کوئی نہ در پہ ہو لیکن لگن رہے
ہر لمحہ انتظار یہ کسی کا لگا رہے

Thursday 16 August 2012

کل ہم نے سپنا دیکھا ہے

کل ہم نے سپنا دیکھا ہے

کل ہم نے سپنا دیکھا ہے
جو اپنا ہو نہیں سکتا ہے
اُس شخص کو اپنا دیکھا ہے

وہ شخص کہ جِس کی خاطر ہم
اِس دیس پِھریں، اُس دیس پِھریں

ہاں اے دل دیوانا

ہاں اے دل دیوانہ۔۔

وہ آج کی محفل میں
ہم کو بھی نہ پہچانا
کیا سوچ لیا دل میں
کیوں ہو گیا بیگانہ
ہاں اے دل دیوانہ

بنجارن کا بوجھ

بنجارن کا بوجھ

پہلی بار بنجارن آئی
خوشیوں کی لیے کھاری
ہونٹ عنابی، باتیں شرابی
کھاری اس کی بھاری
ایک خوشی تو میں نہیں دوں گی
لیتی ہو لو ساری

دروازہ کھلا رکھنا

دروازہ کُھلا رکھنا 

دل درد کی شِدّت سے خُون گشتہ و سِی پارہ
اِس شہر میں پِھرتا ہے، اِک وحشی و آوارہ
شاعر ہے کہ عاشق ہے، جوگی ہے کہ بنجارہ
دروازہ کُھلا رکھنا

سنتے ہیں پِھر چھپ چھپ ان کے گھر میں آتے جاتے ہو

سُنتے ہیں پِھر چُھپ چُھپ اُن کے گھر میں آتے جاتے ہو
انشاؔ صاحب! ناحق جی کو وحشت میں اُلجھاتے ہو
دل کی بات چُھپانی مُشکل، لیکن خُوب چُھپاتے ہو
بَن میں دانا، شہر کے اندر، دِیوانے کہلاتے ہو
بے کَل بے کَل رہتے ہو، پر محفل کے آداب کے ساتھ
آنکھ چُرا کر دیکھ بھی لیتے ہو، بَھولے بھی بن جاتے ہو

لوگ ہلال شام سے بڑھ کر پل میں ماہ تمام ہوئے

لوگ ہلالِ شام سے بڑھ کر، پَل میں ماہِ تمام ہوئے
ہم ہر بُرج میں گَھٹتے گَھٹتے صُبح تلک گُمنام ہوئے
اُن لوگوں کی بات کرو جو عشق میں خُوش انجام ہوئے
نَجد میں قیس، یہاں پر انشؔا، خوار ہوئے، ناکام ہوئے
کِس کا چمکتا چہرہ لائیں کِس سُورج سے مانگیں دُھوپ
گَھور اندھیرا چھا جاتا ہے، خلوتِ دل میں شام ہوئے

دل کس کے تصور میں جانے راتوں کو پرِیشاں ہوتا ہے

دل کِس کے تصوّر میں جانے راتوں کو پرِیشاں ہوتا ہے
یہ حُسنِ طلب کی بات نہیں، ہوتا ہے مِری جاں! ہوتا ہے
ہم تیری سِکھائی منطق سے اپنے کو تو سمجھا لیتے ہیں
اِک خار کھٹکتا رہتا ہے، سینے میں جو پنہاں ہوتا ہے
پِھر اُن کی گلی میں پہنچے گا، پھر سِہو کا سجدہ کر لے گا
اِس دل پہ بھروسا کون کرے، ہر روز مُسلماں ہوتا ہے

پیت کرنا تو ہم سے نبھانا سجن

پِیت کرنا تو ہم سے نِبھانا سجن، ہم نے پہلے ہی دن تھا کہا نا سجن
تم ہی مجبُور ہو، ہم ہی مُختار ہیں، خیر مانا سجن، یہ بھی مانا سجن
اب جو ہونے تھے قِصّے سبھی ہو چکے، تم ہمیں کھو چکے ہم تمہیں کھو چکے
آگے دل کی نہ باتوں میں آنا سجن، کہ یہ دل ہے سدا کا دوانا سجن
یہ بھی سچ ہے نہ کچھ بات جی کی بنی، سُونی راتوں میں دیکھا کیے چاندنی
پر یہ سودا ہے ہم کو پُرانا سجن، اور جینے کا اپنے بہانا سجن

Tuesday 14 August 2012

رنگ وطن از ساغر صدیقی


رنگِ وطن از ساغر صدیقی

********************

چمن چمن، کلی کلی، روِش روِش پُکار دو
وطن کو سرفروش دو، وطن کو جاں نثار دو
جو اپنے غیضِ بے کراں سے کوہسارِ پیس دیں
جو آسماں کو چِیر دیں، ہمیں وہ شہسوار دو
یہی ہے عظمتوں کا اِک اصُولِ جاوداں حضُور
امیر کو شجاعتیں، غریب کو وقار دو

گلدستۂ نعت از ساغر صدیقی

عارفانہ کلام حمد نعت منقبت سلام
گُلدستۂ نعت از ساغر صدیقی

*****************

جس طرف چشمِ محمدؐ کے اِشارے ہو گئے
جتنے ذرّے سامنے آئے، ستارے ہو گئے
جب کبھی عِشق محمدؐ کی عنایت ہو گئی
میرے آنسو کوثر و زمزم کے دھارے ہو گئے
موجۂ طوفاں میں جب نام محمدؐ لے لیا
ڈُوبتی کشتی کے تنکے ہی سہارے ہو گئے

Monday 13 August 2012

سر حسن کلام تھا تیرا نام بھی میرا نام بھی

سَرِ حُسنِ کلام تھا، تیرا نام بھی، میرا نام بھی
کبھی شہر شہر میں عام تھا، تیرا نام بھی، میرا نام بھی
کبھی خاک پر بھی لِکھیں تو مَوجِ ہَوا مِٹا کے اُلجھ پڑے
کبھی زینتِ دَر و بام تھا، تیرا نام بھی، میرا نام بھی
بَھرے دن کی زرد تمازتوں میں بُجھے بُجھے سے رہے، مگر
رُخِ شب پہ ماہِ تمام تھا، تیرا نام بھی، میرا نام بھی

کچھ لوگ بھی وہموں میں گرِفتار بہت ہیں

کچھ لوگ بھی وہموں میں گرِفتار بہت ہیں
کچھ شہر کی گلیاں بھی پُراسرار بہت ہیں
ہے کون، اُترتا ہے وہاں جِس کے لیے چاند
کہنے کو تو چہرے پسِ دیوار بہت ہیں
ہونٹوں پہ سُلگتے ہوئے اِنکار پہ مَت جا
پلکوں سے پَرے بِھیگتے اقرار بہت ہیں

خواہشوں کے زہر میں اخلاص کا رس گھول کر

خواہشوں کے زہر میں اخلاص کا رس گھول کر
وہ تو پتّھر ہو گیا، دو چار دن ہنس بول کر
دِل ہجومِ غم کی زِد میں تھا، سنبھلتا کب تلک
اِک پرندہ آندھیوں میں رہ گیا پَر تول کر
اپنے ہونٹوں پرسجا لے قیمتی ہِیروں سے لفظ
اپنی صُورت کی طرح باتیں بھی تو انمول کر

یوں تو ہے پرستار زمانہ تیرا کب سے

یُوں تو ہے پرستار زمانہ تیرا کب سے
پُوجا ہے مگر ہم نے تُجھے اور ہی ڈَھب سے
اُس آنکھ نے بخشی ہے وہ تاثیر کہ اب تک
مِلتی ہے ہمیں گردِشِ دَوراں بھی ادب سے
یاروں کی نگاہوں میں بصیرت نہ تھی ورنہ
پُھوٹی ہے کئی بار سحر، دامنِ شب سے

میں بھی اڑوں گا ابر کے شانوں پہ آج سے

مَیں بھی اُڑوں گا ابر کے شانوں پہ آج سے
تنگ آ گیا ہُوں تشنہ زمیں کے مِزاج سے
مَیں نے سیاہ لفظ  لِکھے دِل کی لَوح پر
چمکے گا درد اور بھی اِس اِمتزاج سے
انساں کی عافیت کے مسائل نہ چھیڑیئے
دُنیا اُلجھ رہی ہے ابھی تخت و تاج سے

بہت ہوا کہ غم دو جہاں کی زد میں نہیں

بہت ہُوا کہ غمِ دو جہاں کی زَد میں نہیں
کہ میں اسیر زمان و مکاں کی حَد میں نہیں
میرے ملاپ کی خواہش ہے گر تو چاند نہ بن
کہ آسماں کی بلندی تو میرے قَد میں نہیں
سفیرِ موسمِ گُل ہے صبا کا پرچم ہے
وہ برگِ تَر جو ابھی تک خزاں کی زَد میں نہیں

پِھر وہی میں ہوں وہی درد کا صحرا یارو

پِھر وہی مَیں ہُوں، وہی درد کا صحرا یارو
تم سے بِچھڑا ہُوں تو دُکھ پائے ہیں کیا کیا یارو
پیاس اتنی ہے کہ آنکھوں میں بیاباں چمکیں
دُھوپ ایسی ہے کہ جیسے کوئی دریا یارو
یاد کرتی ہیں تمہیں آبلہ پائی کی رُتیں
کس بیاباں میں ہو بولو! مِرے تنہا یارو

ذرا سی دیر میں ہم کیسے کھولتے اس کو

ذرا سی دیر میں ہم کیسے کھولتے اس کو
تمام عُمر لگی جُھوٹ بولتے اس کو
جِسے کَشِید کیا تھا، خُمارِ خُوشبو سے
مثالِ رنگ ہواؤں میں گھولتے اس کو
وہ خواب میں ہی اُترتا شُعاعِ صبح کے ساتھ
ہم اپنے آپ ہی پلکوں پہ تولتے اس کو

ڈر شب کا وہاں کیوں نہ بھلا تیز بہت ہو

ڈر شب کا وہاں کیوں نہ بَھلا تیز بہت ہو
جِس گھر میں دِیا ایک، ہَوا تیز بہت ہو
صدیوں کے مُسافر بھی پَلٹ آئیں گے اِک روز
یہ شرط، کہ رفتارِ صَدا تیز بہت ہو
ہاتھ اُس نے میرے خُون میں تَر کر لیے آخر
خواہش تھی اُسے، رنگِ حِنا تیز بہت ہو

نہ دل میں لو نہ گریباں ہے سرخرو میرا

نہ دل میں لَو نہ گریباں ہے سرخرو میرا
کہ میرے کام نہ آیا کبھی، لہو میرا
سپرد مَوجِ ہوا کر نہ میری رُسوائی
وہ تو ذِکر کرے یُوں بھی کُو بہ کُو میرا
میرا سلامِ اَدب خاکِ مقتلِ یاراں
کہ مُجھ کو ڈُھونڈتا پِھرتا نہ ہو عدُو میرا

وحشتیں بِکھری پڑی ہیں جس طرف بھی جاؤں میں

وحشتیں بِکھری پڑی ہیں جس طرف بھی جاؤں مَیں
گھوم پِھر آیا ہُوں، اپنا شہر، تیرا گاؤں میں
کس کو راس آیا ہے اِتنی دیر تک کا جاگنا
وہ جو مِل جائے تو اُس کو بھی یہی سمجھاؤں میں
اب تو آنکھوں میں اُتر آئی ہیں دِل کی وحشتیں
آئینہ دیکھوں تو اپنے آپ سے ڈر جاؤں میں

سنگدل کتنے تیرے شہر کے منظر نکلے

سنگدل کتنے تیرے شہر کے منظر نکلے
جن کی مہماں تھی شبِ غم، وہی بے گھر نکلے
ایسی آنکھوں سے تو بہتر تھا کہ اندھے ہوتے
ہم جسے آئینہ سمجھیں، وہی پتّھر نکلے
دن بُرے ہوں تو گُہر پر بھی ہو کنکر کا گماں
بَن پڑے بات تو صحرا بھی سمندر نکلے

یوں ہِردے کے شہر میں اکثر تیری یاد کی لہر چلے

یُوں ہِردے کے شہر میں اکثر تیری یاد کی لِہر چلے
جیسے اِک دیہات کی گوری گِیت الاپے شام ڈھلے
دُور اُفق پر پھیل گئی ہے کاجل کاجل تاریکی
پاگل پاگل تنہائی میں کس کی آس کا دِیپ جلے
چاند نگر کے اَوتاروں کو کون بھلا سمجھائے گا
کتنی یادیں سُلگ رہی ہیں اَرمانوں کی راکھ تَلے

میں کیوں نہ ترک تعلق کی ابتدا کرتا

مَیں کیوں نہ ترکِ تعلّق کی ابتدا کرتا
وہ دُور دیس کا باسی تھا کیا وفا کرتا
وہ میرے ضبط کا اندازہ کرنے آیا تھا
مَیں ہنس کے زخم نہ کھاتا تو اور کیا کرتا
ہزار آئینہ خانوں میں بھی مَیں پا نہ سکا
وہ آئینہ جو مُجھے خُود سے آشنا کرتا

اب رفتگاں کی یاد کا کچھ تو پتا بھی دے

اب رفتگاں کی یاد کا کچھ تو پتا بھی دے
اے شام! دُکھ دیا ہے تو پھر حوصلہ بھی دے
چُبھتے ہیں اب تو اشک بھی رہ رہ کے آنکھ میں
موجِ ہوائے شب! یہ چراغاں بُجھا بھی دے
کیا قہر ہے فلک کا ستم بھی زمیں پہ ہو
گرنے لگے فلک تو زمیں آسرا بھی دے

Sunday 12 August 2012

ابھی سے آفت جان ہے ادا ادا تیری

ابھی سے آفتِ جان ہے ادا ادا تیری
یہ ابتداء ہے تو کیا ہو گی انتہا تیری
میری سمجھ میں یہ قاتل نہ آج تک آیا
کہ قتل کرتی ہے تلوار یا ادا تیری؟
نقاب لاکھ چُھپائے وہ چُھپ نہیں سکتی
میری نظر میں جو صُورت ہے دلربا تیری

حوصلہ وصل کا، قسمت نے نکلنے نہ دیا

حوصلہ وصل کا، قِسمت نے نکلنے نہ دیا
ان کو شوخی نے مجھے دل نے سنبھلنے نہ دیا
قتل کر کے مجھے، جانا تھا انہیں مقتل سے
آپ چلتے ہوئے، تلوار کو چلنے نہ دیا
جام پر جام پلاتی رہی چشمِ ساقی
مجھ کو اِس دورِ مسلسل سے سنبھلنے نہ دیا

ہم بصد ناز دل و جاں میں بسائے بھی گئے

ہم بصد ناز دل و جاں میں بسائے بھی گئے
پھر گنوائے بھی گئے اور بھلائے بھی گئے
ہم تِرا ناز تھے، پھر تیری خُوشی کی خاطِر
کر کے بیچارہ تِرے سامنے لائے بھی گئے
کَج ادائی سے سزا کَج کُلہی کی پائی
میرِ محفل تھے سو محفل سے اُٹھائے بھی گئے

حال یہ ہے کہ خواہش پرسشِ حال بھی نہیں

حال یہ ہے کہ خواہشِ پُرسشِ حال بھی نہیں
اُس کو خیال بھی نہیں، اپنا خیال بھی نہیں
اے شجرِ حیاتِ شوق، ایسی خزاں رسیدگی؟
پوششِ برگ و گُل تو کیا، جسم پہ چھال بھی نہیں
مُجھ میں وہ شخص ہو چکا جس کا کوئی حساب تھا
سُود ہی کیا، زیاں ہے کیا، اِس کا سوال بھی نہیں

دل جلانے کی بات کرتے ہو

دل جلانے کی بات کرتے ہو
آشیانے کی بات کرتے ہو
ہم کو اپنی خبر نہیں یارو
تم زمانے کی بات کرتے ہو
سارے دنیا کے رنج و غم دے کر
مسکرانے کی بات کرتے ہو

Saturday 11 August 2012

امرت تیری چاہت کا پیے بن نہ رہا جائے

امرت تیری چاہت کا پیے بِن نہ رہا جائے
یہ جُرم اگر ہے تو کیے بِن نہ رہا جائے
جب ذکر ہو تسکینِ دِل و جاں کا سرِ بزم
مجھ سے تو تیرا نام لیے بِن نہ رہا جائے
وہ رُت ہے کہ ہر سانس عذابِ رگِ جاں ہے
اِس پر بھی ستم یہ کہ جیے بِن نہ رہا جائے

پیاس بخشی ہے تو پھر اجر بھی کھل کر دینا

پیاس بخشی ہے تو پھر اَجر بھی کُھل کر دینا
اَبر مانگے میری دھرتی تو سمندر دینا
اپنی اوقات سے بڑھنا مجھے گُم کر دے گا
مجھ کو سایہ بھی میرے قد کے برابر دینا
یہ سخاوت میرے شجرے میں لکھی ہے پہلے
اپنے دُشمن کو دُعائیں تہِ خنجر دینا

یہ زمیں صحیفہ خاک ہے یہ فلک صحیفہ نور ہے

یہ زمیں صحیفۂ خاک ہے، یہ فلک صحیفۂ نُور ہے
یہ کلام پڑھ کبھی غور سے، یہاں ذرّہ ذرّہ زبُور ہے
یہاں بَرگ بَرگ ہے اِک نَوا، گُل و یاسمن ہیں سخن سَرا
اِسے حفظ کر، اِسے دل میں رکھ، یہ وَرَق، جو کَشف و ظہُور ہے
یہ جو پَل ہیں قُربِ جمال کے، اِنہیں ڈر سمجھ کے سَمیٹ لے
یہ جو آگ سی تِرے دل میں ہے، یہ شبیہِ شعلۂ طُور ہے

رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے

رنگ باتیں کریں اور باتوں سے خُوشبُو آئے
درد پُھولوں کی طرح مہکیں، اگر تُو آئے
بِھیگ جاتی ہیں اِس اُمید پر آنکھیں ہر شام
شاید اِس رات وہ مہتاب، لبِ جُو آئے
ہم تیری یاد سے کترا کے گزر جاتے، مگر
راہ میں پُھولوں کے لب، سایوں کے گیسُو آئے

Friday 10 August 2012

کوئی نئی چوٹ پِھر سے کھاؤ اداس لوگو

کوئی نئی چوٹ پِھر سے کھاؤ! اُداس لوگو
کہا تھا کِس نے کہ مُسکراؤ! اُداس لوگو
گُزر رہی ہیں گلی سے پِھر، ماتمی ہوائیں
کِواڑ کھولو، دِئیے بُجھاؤ! اُداس لوگو
جو رات مقتل میں بال کھولے اُتر رہی تھی
وہ رات کیسی رہی سناؤ! اُداس لوگو

آج تنہائی نے تھوڑا سا دلاسہ جو دیا

آج تنہائی نے تھوڑا سا دِلاسہ جو دیا

آج تنہائی نے تھوڑا سا دِلاسہ جو دیا
کتنے رُوٹھے ہوئے ساتھی مُجھے یاد آئے ہیں
موسمِ وصل کی کِرنوں کا وہ انبوہِ رواں
جس کے ہمراہ کسی زُہرہ جبِیں کی ڈولی
ایسے اُتری تھی کہ جیسے کوئی آیت اُترے
ہِجر کی شام کے بِکھرے ہوئے کاجل کی لکِیر

تیرے بدن سے جو چھو کر ادھر بھی آتا ہے

تیرے بدن سے جو چُھو کر اِدھر بھی آتا ہے
مثالِ رنگ، وہ جھونکا نظر بھی آتا ہے
تمام شب جہاں جلتا ہے اِک اُداس دِیا
ہَوا کی راہ میں اِک ایسا گھر بھی آتا ہے
وہ مُجھ کو ٹُوٹ کے چاہے گا،چھوڑ جائے گا
مُجھے خبر تھی، اُسے یہ ہُنر بھی آتا ہے

فضا کا حبس شگوفوں کو باس کیا دے گا

فضا کا حَبس شگُوفوں کو باس کیا دے گا؟
بدن دریدہ، کسی کو لباس کیا دے گا؟
یہ دل کہ قحطِ اَنا سے غریب ٹھہرا ہے
میری زباں کو زرِ التماس کیا دے گا؟
جو دے سکا نہ پہاڑوں کو برف کی چادر
وہ میری بانجھ زمیں کو کپاس کیا دے گا؟

وہ جِس کا نام لے لیا پہیلیوں کی اوٹ میں

وہ جِس کا نام لے لیا، پہیلیوں کی اوٹ میں
نظر پڑی تو چُھپ گئی، سہیلیوں کی اوٹ میں
رُکے گی شرم سے کہاں، یہ خال و خد کی روشنی
چُھپے گا آفتاب کیا، ہتھیلیوں کی اوٹ میں
تِرے مِرے مِلاپ پر، وہ دُشمنوں کی سازشیں
وہ سانپ رِینگتے ہوئے، چنبیلیوں کی اوٹ میں

Thursday 9 August 2012

کڑی تنہائیوں کو ہمسفر کہتا رہا ہوں میں

کَڑی تنہائیوں کو ہمسفر کہتا رہا ہوں میں 
خیال یار! تُجھ کو مُعتبر کہتا رہا ہوں میں 
کرایا شامِ فُرقت نے تعارف ایک نیا اُس کا 
وہ ایک دریا کہ جس کو چشمِ تر کہتا رہا ہوں میں
وہاں بھی لوگ اپنی کِرچیاں چُنتے نظر آئے 
جہاں کے پتّھروں کو بے ضرر کہتا رہا ہوں میں 

مرے سوا سر مقتل مقام کس کا ہے

مرے سوا سرِ مقتل، مقام کِس کا ہے
کہو کہ اب لبِ قاتل پہ نام کِس کا ہے
یہ تخت و تاج و قبا سب اُنہیں مبارک ہو
مگر یہ نوکِ سِناں احترام کِس کا ہے
ہماری لاش پہ ڈھونڈو نہ اُنگلیوں کے نِشاں
ہمیں خبر ہے عزیزو! یہ کام کِس کا ہے

ہجر کی شب کا نشاں مانگتے ہیں

ہِجر کی شب کا نِشاں مانگتے ہیں
ہم چراغوں سے دُھواں مانگتے ہیں
کس قدر دُھوپ ہے صحرا میں کہ لوگ
سایۂ ابرِ رواں مانگتے ہیں
جب رگِ گُل کو ہَوا چَھیڑتی ہے
ہم تیرا لُطفِ بیاں مانگتے ہیں

دلوں میں اٹھتے ہوئے درد بے کنار کی خیر

دلوں میں اُٹھتے ہوئے دردِ بے کنار کی خیر
درِ قفس سے اُدھر، شامِ اِنتظار کی خیر
مزاجِ طوق و سلاسل کی برہمی کو دُعا
مقامِ شوق سلامت، صلیب و دار کی خیر
تھکے تھکے ہوئے قدموں کی آہٹوں کو سلام
بُجھی بُجھی ہوئی اِک ایک رہگزار کی خیر

کچھ اس طرح وہ گھری ہوئی تھی سہیلوں میں

کچھ اِس طرح وہ گِھری ہوئی تھی سہیلوں میں
گلاب جیسے کِھلا ہوا ہو، چنبیلیوں میں
کوئی کیا سمجھے میں خود بھی اسکو سمجھ نہ پایا
وہ بات کرتی ہے مجھ سے اکثر پہلیوں میں
میں سوچتا ہوں وہ میرے گھر میں رہے گی کیسے
رہی ہو اب تک جو اونچی اونچی حویلیوں میں

زلف ریشم ہے تو چہرہ اجالوں جیسا

زلف ریشم ہے تو چہرہ اجالوں جیسا
وہ تو لگتا ہے، تروتازہ گُلابوں جیسا
اس کی باتیں تو ہیں گنگھور گھٹاؤں جیسی
اس کا مخمُور سا لہجہ ہے شرابوں جیسا
خود ہی کھلتا ہے مگر مجھ پہ بھی تھوڑا تھوڑا
اِتنا مشکل ہے کہ لگتا ہے نِصابوں جیسا

Wednesday 8 August 2012

اسے اپنے فردا کی فکر تھی وہ جو میرا واقف حال تھا

اسے اپنے فردا کی فِکر تھی، وہ جو میرا واقفِ حال تھا
وہ جو اُس کی صبحِ عروج تھی، وہی میرا وقتِ زوال تھا
میرا درد کیسے وہ جانتا، میری بات کیسے وہ مانتا
وہ تو خود فنا کے سفر پہ تھا، اسے روکنا بھی محال تھا
کہاں جاؤ گے مجھے چھوڑ کر، میں یہ پوچھ پوچھ کے تھک گیا
وہ جواب مجھ کو نہ دے سکا، وہ تو خود سراپا سوال تھا

Monday 6 August 2012

چہرے پہ اپنا دست کرم پھیرتی ہوئی

چہرے پہ اپنا دستِ کرم پھیرتی ہوئی
ماں رو پڑی ہے سَر کو مِرے چومتی ہوئی
اب کتنے دن رہو گے مِرے پاس تم یہاں
تھکتی نہیں ہے مجھ سے یہی پوچھتی ہوئی
رہتی ہے جاگتی وہ مِری نیند کے لیے
بچوں کو مجھ سے دور پرے روکتی ہوئی

Sunday 5 August 2012

ہر اک چلن میں اسی مہربان سے ملتی ہے

ہر اِک چلن میں اسی مہربان سے مِلتی ہے
زمیں ضرور، کہِیں آسماں سے مِلتی ہے
ہمیں تو شعلۂ خِرمن فروز بھی نہ ملا
تِری نظر کو تجلّی کہاں سے مِلتی ہے؟
تِری نظر سے آخر عطا ہوئی دل کو
وہ اِک خلِش کہ غمِ دو جہاں سے مِلتی ہے

درپردہ جفاؤں کو اگر جان گئے ہم

دَرپردہ جفاؤں کو اگر جان گئے ہم
تم یہ نہ سمجھنا کہ بُرا مان گئے ہم
اب اور ہی عالم ہے جہاں کا دلِ ناداں
اب ہوش میں آئے تو مری جان، گئے ہم
پلکوں پہ لرزتے ہوئے تارے سے آنسو
اے حُسنِ پشیماں، ترے قُربان گئے ہم

مری داستان حسرت وہ سنا سنا کے روئے

گائی گئی غزل 

مری داستانِ حسرت، وہ سُنا سُنا کے روئے
مرے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے
کوئی ایسا اہلِ دل ہو کہ فسانۂ محبت
میں اُسے سُنا کے روؤں، وہ مجھے سُنا کے روئے
مری آرزو کی دُنیا، دلِ ناتواں کی حسرت
جسے کھو کے شادماں تھے، آج اُسے پا کے روئے

راہ آسان ہو گئی ہو گی

گائی گئی غزل

راہ آسان ہو گئی ہو گی
جان پہچان ہو گئی ہو گی
موت سے تیرے دردمندوں کی
مُشکل آسان ہو گئی ہو گی
پھر پلٹ کر نِگَہ نہیں آئی
تجھ پہ قُربان ہو گئی ہو گی

ہم کو تو گردش حالات پہ رونا آیا

ہم کو تو گردشِ حالات پہ رونا آیا
رونے والے! تجھے کِس بات پہ رونا آیا
کیسے جیتے ہیں یہ، کس طرح جیے جاتے ہیں
اہلِ دل کی بسر اوقات پہ رونا آیا
جی نہیں آپ سے کیا شکایت ہو گی
ہاں، مجھے تلخئ حالات پہ رونا آیا

مسجد و منبر کہاں میخوار و میخانے کہاں

مسجد و منبر کہاں مے خوار و مے خانے کہاں
کیسے کیسے لوگ آ جاتے ہیں سمجھانے کہاں
یہ کہاں تک پھیلتی جاتی ہیں دل کی وُسعتیں
حسرتو! دیکھو سمٹ آئے ہیں ویرانے کہاں
میں بہت بچ بچ کے گُزرا ہوں غمِ ایّام سے
لُٹ گئے تیرے تصوّر سے پری خانے کہاں

چھپ چھپ کے اب نہ دیکھ وفا کے مقام سے

چُھپ چُھپ کے اب نہ دیکھ وفا کے مقام سے
گُزرا ہمارا درد، دوا کے مقام سے
لوٹ آئے ہم عرضِ وفا کے مقام سے
ہر شے تھی پست اُن کی رَضا کے مقام سے
اے مطربِ سوادِ چمن زار! ہوشیار
صَرصَر گُزر رہی ہے صبا کے مقام سے

کس کو گماں ہے اب کہ مرے ساتھ تم بھی تھے

کس کو گُماں ہے اب کہ مِرے ساتھ تم بھی تھے
ہائے وہ روز و شب، کہ مرے ساتھ تم بھی تھے
یادش بخیر عہدِ گُزشتہ کی صحبتیں
اِک دَور تھا عجب کہ مرے ساتھ تم بھی تھے
بے مہرئ حیات کی شِدّت کے باوجود
دل مطمئن تھا جب کہ مرے ساتھ تم بھی تھے

قاصد جو تھا بہار کا نامعتبر ہوا

قاصد جو تھا بہار کا، نامعتبر ہُوا
گُلشن میں بندوبست برنگِ دِگر ہُوا
خواہش جو شاخِ حرف پہ چَٹکی، بِکھر گئی
آنسو جو دِل میں بند رہا، وہ گُہر ہُوا
اِک منحرف گواہ کی صُورت، چراغِ شام
اُس کی گلی میں رات مرا ہمسفر ہوا

بچھڑ کے تجھ سے تیری یاد کے نگر آئے

بِچھڑ کے تجھ سے، تیری یاد کے نگر آئے
کہ اِک سفر سے کوئی جیسے اپنے گھر آئے
ہمارے ساتھ رُکے گی ہماری تنہائی
تمہارے ساتھ گئے جو بھی دربدر آئے
گماں بھٹکنے لگے تھے پسِ نِگاہ، مگر
چراغ دور سے جلتے ہوئے نظر آئے

کسی بھی لفظ کا جادو اَثر نہیں کرتا

کسی بھی لفظ کا جادو اَثر نہیں کرتا
وہ اپنے دل کی مجھے بھی خبر نہیں کرتا
بنا ہوا ہے بظاہر وہ بے تعلّق بھی
جو مجھ کو سوچے بِنا دن بسر نہیں کرتا
ٹھہرنے بھی نہیں دیتا ہے اپنے دل میں مجھے
محبتیں بھی مِری دل بدر نہیں کرتا

Saturday 4 August 2012

قربان میں ان کی بخشش کے مقصد بھی زباں پر آیا نہیں

وما ارسلنک الا رحمۃ اللعالمین

قربان میں اُنؐ کی بخشِش کے مقصد بھی زباں پر آیا نہیں
بِن مانگے دیا اور اتنا دیا، دامن میں ہمارے سمایا نہیں
آواز، کَرم دیتا ہی رہا، تھک ہار گئے لینے والے
منگتوں کی ہمیشہ لاج رکھی، محرُوم کوئی لوٹایا نہیں
رحمت کا بھرم بھی تُمؐ سے ہے، شفقت کا بھرم بھی تُمؐ سے ہے
ٹھکرائے ہوئے انساں کو بھی تُمؐ نے تو کبھی ٹھکرایا نہیں

ہے تیری عنایات کا ڈیرا میرے گھر میں

وما ارسلنک الا رحمۃ اللعالمین

ہے تیریؐ عنایات کا ڈیرا میرے گھر میں
سب تیراؐ ہے کچھ بھی نہیں میرا میرے گھر میں
جاگا تیریؐ نِسبت سے یہ تارِیک مُقدّر
آیا تیرےؐ آنے سے سویرا میرے گھر میں
مِدحت نے تیریؐ مجھ کو یہ اعزاز دیا ہے
ہے سارے اُجالوں کا بسیرا میرے گھر میں

Friday 3 August 2012

نور برسا پھول سے اور خون برسا سنگ سے

نور برسا پھول سے اور خون برسا سنگ سے
اہتمامِ فصلِ گل ہے اپنے اپنے رنگ سے
پا شکستہ ہوں مگر محرومِ ذوقِ دل نہیں
منزلوں کو دیکھ لیتا ہوں کئی فرسنگ سے
مجھ کو آوارہ ہواؤ! ساتھ اپنے لے چلو
میرا جی گھبرا گیا ہے اس جہانِ تنگ سے

جو شجر سوکھ گیا ہے وہ ہرا کیسے ہو

جو شجر سوکھ گیا ہے وہ ہرا کیسے ہو
میں پیمبر تو نہیں، میرا کہا کیسے ہو
دل کے ہر ذرے پہ ہے نقش، محبت اس کی
نور آنکھوں کا ہے، آنکھوں سے جدا کیسے ہو
جس کو جانا ہی نہیں، اس کو خدا کیوں مانیں
اور جسے جان چکے ہیں، وہ خدا کیسے ہو

شاید کوئی فسوں ہے تمہاری نگاہ میں

شاید کوئی فسوں ہے تمہاری نگاہ میں
لذت سی پا رہا ہوں غمِ بے پناہ میں
اڑنے کے واسطے کسی جھونکے کے منتظر
بیٹھے ہوئے ہیں خاک کی مانند راہ میں
یادیں بھی ہیں امید بھی ہے بے بسی بھی ہے
اے دوست! کیا نہیں ہے ہماری نگاہ میں

ہم دو قدم بھی چل نہ سکے خاک پا ہوئے

ہم دو قدم بھی چل نہ سکے، خاکِ پا ہوئے
جو قافلے کے ساتھ گئے، جانے کیا ہوئے
آنکھوں میں ایک اشک سحر تک نہ آ سکا
کن حسرتوں کے ساتھ ستارے جدا ہوئے
دل کو شبِ طرب کی فضا یاد رہ گئی
لیکن وہ انتظار کے لمحات کیا ہوئے

یہ سوچ کر کہ تیری جبیں پر نہ بل پڑے

یہ سوچ کر کہ تیری جبِیں پر نہ بل پڑے
بس دور ہی سے دیکھ لیا اور چل پڑے
دل میں پھر اک کسک سی اٹھی مدتوں کے بعد
اک عمر سے رکے ہوئے آنسو نکل پڑے
سینے میں بے قرار ہیں مردہ محبتیں
ممکن ہے یہ چراغ کبھی خود ہی جل پڑے

ممکن ہو آپ سے تو بھلا دیجئے مجھے

ممکن ہو آپ سے تو بھلا دیجئے مجھے
پتھر پہ ہوں لکِیر مٹا دیجئے مجھے
ہر روز مجھ سے تازہ شکایت ہے آپ کو
میں کیا ہوں، ایک بار بتا دیجئے مجھے
میرے سوا بھی ہے کوئی موضوعِ گفتگو
اپنا بھی کوئی رنگ دِکھا دیجئے مجھے

کبھی ان سے کبھی خود سے بھی غافل

کبھی ان سے کبھی خود سے بھی غافل ہو گیا ہوں میں
دیارِ بے خودی میں اب تیرے قابل ہو گیا ہوں میں
سرِ محفل بہ اندازِ تغافل دیکھنے والے
تیری بے اعتنائی کا بھی قائل ہو گیا ہوں میں
بگولوں کی طرح اڑتا پِھرا ہوں شوقِ منزل میں
مگر منزل پہ آ کے خاکِ منزل ہو گیا ہوں میں

اب تلک اس کی محبت کا نشہ طاری ہے

اب تلک اس کی محبت کا نشہ طاری ہے
پھول باقی نہیں خوشبو کا سفر جاری ہے
دھیان بھی اس کا ہے، ملتے بھی نہیں ہیں اس سے
جسم سے بیر ہے، سایے سے وفاداری ہے
دل کو تنہائی کا احساس بھی باقی نا رہا
وہ بھی دھندلا گئی جو شکل بہت پیاری ہے

دل میں وہ آباد ہے جس کو کبھی چاہا نہ تھا

دل میں وہ آباد ہے جس کو کبھی چاہا نہ تھا
چور سے ڈرتے تھے لیکن گھر کا دروازہ نہ تھا
گرچہ وہ آباد ہے تارِ رگِ جاں کے قریب
ڈھونڈتے اس کو کہاں جس کو کہیں دیکھا نہ تھا
اب جہاں میں ہوں وہاں میرے سوا کچھ بھی نہیں
میں اسی صحرا میں رہتا تھا، مگر تنہا نہ تھا

سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ دل کی خو کیا تھی

سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ دل کی خُو کیا تھی
سفر تو آٹھ پہر کا تھا،۔۔ جستجو کیا تھی
وہ آبشار کے پانی سی طبع رکھتا تھا
مگر تھکے ہوئے لہجے کی گفتگو کیا تھی
ہوئی شکست، جہاں فتح کا یقین ہوا
کوئی چھپا ہوا دشمن تھا، آرزو کیا تھی

پریت بنا جگ سونا سونا پریت کیے دکھ ہوئے

پرِیت بِنا جگ سُونا سُونا، پرِیت کیے دکھ ہوئے
جیون ہی جگ روگ بنا من جیسے چاہے روئے
آنکھ مچولی سی کھیلی ہے ساری ساری رات
سو سو کر ہم جاگ اٹھے اور جاگ جاگ کر سوئے
بوند بوند ہو ہو کے لہو سب انگ انگ سے ٹپکا
سیج سیج پر کانٹے ہم نے کروٹ کروٹ بوئے

دل فسردہ اسے کیوں گلے لگا نہ لیا

دل فسردہ اسے کیوں گلے لگا نہ لیا
قریب رہ کے بھی جس نے تیرا پتا نہ لیا
بس ایک لمحے میں کیا کچھ گزر گئی دل پر
بحال ہوتے ہوئے ہم نے اک زمانہ لیا
تمام عمر ہوا پھانکتے ہوئے گزری
رہے زمیں پہ مگر خاک کا مزا نہ لیا

میرے ہمراہ منزل بھی رواں ہے

میرے ہمراہ منزل بھی رواں ہے
مسافر میں ہوں یا سارا جہاں ہے
حقیقت تک رسائی ہے کہاں ہے
یقیں جس کو سمجھتے ہو گُماں ہے
وہاں پہنچے جہاں جانا نہیں تھا
سفر جتنا کیا وہ رائیگاں ہے

حال اس کا تیرے چہرے پہ لکھا لگتا ہے

حال اس کا تیرے چہرے پہ لِکھا لگتا ہے
وہ جو چپ چاپ کھڑا ہے تیرا کیا لگتا ہے
یوں تو ہر چیز سلامت ہے میری دنیا میں
ایک تعلق ہے جو ٹوٹا ہوا لگتا ہے
میں نے سوچا تھا کہ آباد ہوں اک شہر میں میں
یہاں تو ہر شخص کا انداز جدا لگتا ہے

مجھ سے تیرے حضور چھپایا نہ جا سکا

مجھ سے تیرے حضور چھپایا نہ جا سکا
وہ ماجرائے غم کہ سنایا نہ جا سکا
تُو نے تو ہم کو بخش دیے دو جہاں کے غم
بارِ کرم ہمیں سے اٹھایا نہ جا سکا
ہیں جاں فزا زمانے کی رنگینیاں مگر
دل وہ دیار تھا کہ بھلایا نہ جا سکا

جس سے تو بات کرے جو ترا چہرہ دیکھے

جس سے تُو بات کرے جو تِرا چہرہ دیکھے
پھر اسے شہر نظر آئے نہ صحرا دیکھے
روشنی وہ ہے کہ آنکھیں نہیں کھلنے پاتیں
اب تو شاید ہی کوئی ہو جو اجالا دیکھے
اس بھرے شہر میں کس کس سے کہوں حال اپنا
میری حالت تو کوئی دیکھنے والا دیکھے

اس در پہ جو سر بار کے روتا کوئی ہوتا

اس در پہ جو سر بار کے روتا کوئی ہوتا
تُو بسترِ راحت پہ نہ سوتا، کوئی ہوتا
کس کا فلک اوّل و ہفتم کہ مِرا اشک
اِک آنکھ جھپکتے میں ڈبوتا کوئی ہوتا
یہ دل ہی تھا ناداں کہ تِری زُلف سے اُلجھا
یوں اپنے لیے خار نہ بوتا کوئی ہوتا

دم بدم ساقی و مطرب کو صدا دیتے ہیں

دم  بدم، ساقی و مطرب کو صدا دیتے ہیں
موسمِ گُل میں ہم اِک دُھوم مچا دیتے ہیں
جنسِ دل آپ گراں سمجھے ہیں اِک بوسے پر
دھیان اتنا نہیں کیا لیتے ہیں، کیا دیتے ہیں
ہم وہ بسمل ہیں کہ ٹھنڈے نہیں ہوتے جب تک
دامنِ زخم سے قاتل کو ہوا دیتے ہیں

ہاں فرو سوز دل اک دم نہ ہوا پر نہ ہوا

ہاں فرو سوز دل اِک دَم نہ ہُوا پر نہ ہُوا
اور گریہ سے بڑھا، کم نہ ہُوا پر نہ ہُوا
سُن کر احوالِ جگر سوز غریبِ عشق کا
ہائے افسوس، تجھے غم نہ ہُوا پر نہ ہُوا
کُشتہ از کے افسوس جنازے پہ ذرا
چشم پُرآب تُو اِک دم نہ ہُوا پر نہ ہُوا

کسی نے اس کو سمجھایا تو ہوتا

کسی نے اس کو سمجھایا تو ہوتا
کوئی یاں تک اُسے لایا تو ہوتا
مزہ رکھتا ہے زخمِ خنجرِ عشق
کبھی اے بُوالہوس! کھایا تو ہوتا
نہ بھیجا تُو نے لِکھ کر ایک پرچہ
ہمارے دل کو پرچایا تو ہوتا

Thursday 2 August 2012

تو کجا من کجا

تو کجا مَن کجا 
تو کجا مَن کجا 
تُوؐ امیرِ حرم، میں فقیرِعجم
تیرے گُن اور یہ لَب، میں طلب ہی طلب
تُوؐ عطا ہی عطا، میں خطا ہی خطا
تُوؐ کُجا مَن کُجا، تُوؐ کُجا مَن کُجا 

لا نبی بعدی

لاَ نَبِىَّ بَعْدِى

خُود میرے نبیؐ نے بات یہ بتا دی، لاَ نَبِىَّ بَعْدِى
ہر زمانہ سُن لے یہ نوائے ہادی، لاَ نَبِىَّ بَعْدِى

لمحہ لمحہ اُنؐ کا طاق میں ہُوا جگمگانے والا
آخری شریعت کوئی آنے والی اور نہ لانے والا
لہجۂ خدا میں آپؐ نے صدا دی، لاَ نَبِىَّ بَعْدِى

تم اتنا جو مسکرا رہے ہو

تُم اِتنا جو مُسکرا رہے ہو
کيا غم ہے جِس کو چُھپا رہے ہو
آنکھوں ميں نمی، ہنسی لبوں پر
کيا حال ہے، کيا دِکھا رہے ہو
بن جائيں گے زہر پيتے پيتے
يہ اشک جو پيتے جا رہے ہو

اتنا تو زندگی میں کسی کی خلل پڑے

اِتنا تو زندگی میں کسی کی خلل پڑے
ہنسنے سے ہو سکون نہ رونے سے کَل پڑے
جس طرح ہنس رہا ہوں میں پی پی کے گرم اشک
یُوں دُوسرا ہنسے تو کلیجا نِکل پڑے
اِک تُم کہ تُم کو فکرِ نشیب و فراز ہے
اِک ہم کہ چل پڑے تو بہرحال چل پڑے

جھکی جھکی سی نظر بیقرار ہے کہ نہیں

جُھکی جُھکی سی نظر بے قرار ہے کہ نہیں
دبا دبا سا سہی، دل میں پیار ہے کہ نہیں
تُو اپنے دل کی جواں دھڑکنوں کو گِن کے بتا
میری طرح تیرا دل بیقرار ہے کہ نہیں
وہ پَل کہ جس میں محبت جوان ہوتی ہے
اس ایک پَل کا تُجھے انتظار ہے کہ نہیں

کیا جانے کس کی پیاس بجھانے کدھر گئیں

کیا جانے کِس کی پیاس بُجھانے کِدھر گئیں
اِس سَر پہ جھُوم کے جو گھٹائیں گُزر گئیں
دیوانہ پوچھتا ہے یہ لہروں سے بار بار
کچھ بستیاں یہاں تھیں، بتاؤ! کِدھر گئیں؟
اب جس طرف سے چاہے گُزر جائے کارواں
ویرانیاں تو سب مِرے دل میں اُتر گئیں

شور یونہی نہ پرِندوں نے مچایا ہو گا

شور یُونہی نہ پرِندوں نے مچایا ہو گا
کوئی جنگل کی طرف شہر سے آیا ہو گا
پیڑ کے کاٹنے والوں کو یہ معلوم تو ہو گا
جسم جل جائیں گے جب سر پہ نہ سایہ ہو گا
بانیٔ جشنِ بہاراں نے یہ سوچا بھی نہیں
کس نے کانٹوں کو لہُو اپنا پِلایا ہو گا

آوارہ سجدے

آوارہ سجدے

اِک يہی سوزِ نِہاں، کُل ميرا سرمايہ ہے 
دوستو! ميں کِسے يہ سوزِ نِہاں نذر کروں 
کوئی قاتل، سرِ مقتل نظر آتا ہی نہيں 
کِس کو دل نذر کروں اور کِسے جاں نذر کروں 

تم بھی محبوب مرے، تم بھی ہو دِلدار ميرے 
آشنا مُجھ سے مگر تُم بھی نہيں، تُم بھی نہيں 

کوئی یہ کیسے بتائے کہ وہ تنہا کیوں ہے

کوئی یہ کیسے بتائے کہ وہ تنہا کیوں ہے
وہ جو اپنا تھا وہی اور کسی کا کیوں ہے
یہی دُنیا ہے تو پِھر ایسی یہ دُنیا کیوں ہے
یہی ہوتا ہے، تو آخر یہی ہوتا کیوں ہے

ایک ذرا ہاتھ بڑھا دیں تو پکڑ لیں دامن
اس کے سینے میں سما جائے ہماری دھڑکن
اتنی قُربت ہے تو پِھر فاصلہ اِتنا کیوں ہے

ميں اگر جاں سے گزرتا ہوں، گزر جانے دے

ميں اگر جاں سے گُزرتا ہوں، گُزر جانے دے 
“اپنی آنکھوں کے سمندر ميں اُتر جانے دے“ 
اپنی بانہيں ميری گردن ميں حمائل کر دے 
اپنی زُلفيں ميرے شانوں پہ بِکھر جانے دے 
گو بھلانا ہے قيامت، تُو مگر ياد نہ آ 
ميرے اوپر يہ قيامت بھی گُزر جانے دے 
جی مگر وعدۂ فردا سے کہاں تک بِہلے 
روز مرنے سے تو اِک بار ہی مر جانے دے 
قافلہ درد کا بھٹکے گا شرفؔ! اور کہاں 
اپنے سينے ہی کے صحرا ميں اُتر جانے دے

محمود شرفؔ صديقی

Wednesday 1 August 2012

بکھر کے ٹوٹنے والے صدا نہیں کرتے

بِکھر کے ٹوٹنے والے صدا نہیں کرتے
کوئی بھی کام خلافِ انا نہیں کرتے
شجر پہ بیٹھے ہوئے پنچھیوں سے بات کرو
فضا میں اڑتے پرندے سنا نہیں کرتے
گہر شناس ہیں طوفاں کے ساتھ رہتے ہیں
سمندروں سے عداوت کِیا نہیں کرتے

سائے پھیل جاتے ہیں درد رت کے ڈھلنے سے

سائے پھیل جاتے ہیں درد رُت کے ڈھلنے سے
چہرہ کس کا بدلا ہے؟، آئینے بدلنے سے
جنگلوں کے سناٹے رُوح میں اترتے ہیں
خواہشوں کے موسم میں پافگار چلنے سے
خواب پھر سے جاگے ہیں نیم خواب آنکھوں میں
گھنٹیاں سی بجتی ہیں آرزو بدلنے سے

ہم خاک با سر ریت کے صحرا میں کھڑے ہیں

ہم خاک با سر ریت کے صحرا میں کھڑے ہیں
پیاسے ہیں مگر اپنے اصولوں پہ اَڑے ہیں
لے جائے کہیں بھی ہمیں سیلابِ محبت
ہم کب کسی طُوفان کے ریلوں سے ڈرے ہیں
ہم نے بھی کفن باندھ لیے اپنے سروں پر
سب تیر بھی اپنی کمانوں میں پڑے ہیں

کوئی بھی حرف دعا اب اثر نہیں رکھتا

کوئی بھی حرفِ دُعا اب اثر نہیں رکھتا
میرا خُدا بھی تو مُجھ پر نظر نہیں رکھتا
ہوا کو کس لئے بے چِہرگی کا صدمہ ہے
یہاں تو کوئی بھی شانوں پہ سر نہیں رکھتا
وہ دشتِ خواب ہو ویرانہ ہو کہ صحرا ہو
جنوں کی راہ میں حدِ سفر نہیں رکھتا