کوئی یہ کیسے بتائے کہ وہ تنہا کیوں ہے
وہ جو اپنا تھا وہی اور کسی کا کیوں ہے
یہی دُنیا ہے تو پِھر ایسی یہ دُنیا کیوں ہے
یہی ہوتا ہے، تو آخر یہی ہوتا کیوں ہے
ایک ذرا ہاتھ بڑھا دیں تو پکڑ لیں دامن
اس کے سینے میں سما جائے ہماری دھڑکن
دلٍ برباد سے نِکلا نہیں اب تک کوئی
ایک لُٹے گھر پہ دیا کرتے ہے دستک کوئی
آس جو ٹُوٹ گئی پِھر سے بندھاتا کیوں ہے
تم مسرّت کا کہو یا اِسے غم کا رِشتہ
کہتے ہیں پیار کا رشتہ ہے جنم کا رِشتہ
ہے جنم کا جو یہ رِشتہ تو بدلتا کیوں ہے
کیفی اعظمی
No comments:
Post a Comment