Thursday 2 August 2012

کوئی یہ کیسے بتائے کہ وہ تنہا کیوں ہے

کوئی یہ کیسے بتائے کہ وہ تنہا کیوں ہے
وہ جو اپنا تھا وہی اور کسی کا کیوں ہے
یہی دُنیا ہے تو پِھر ایسی یہ دُنیا کیوں ہے
یہی ہوتا ہے، تو آخر یہی ہوتا کیوں ہے

ایک ذرا ہاتھ بڑھا دیں تو پکڑ لیں دامن
اس کے سینے میں سما جائے ہماری دھڑکن
اتنی قُربت ہے تو پِھر فاصلہ اِتنا کیوں ہے

دلٍ برباد سے نِکلا نہیں اب تک کوئی
ایک لُٹے گھر پہ دیا کرتے ہے دستک کوئی
آس جو ٹُوٹ گئی پِھر سے بندھاتا کیوں ہے

تم مسرّت کا کہو یا اِسے غم کا رِشتہ
کہتے ہیں پیار کا رشتہ ہے جنم کا رِشتہ
ہے جنم کا جو یہ رِشتہ تو بدلتا کیوں ہے

کیفی اعظمی

No comments:

Post a Comment