کوئی نئی چوٹ پِھر سے کھاؤ! اُداس لوگو
کہا تھا کِس نے کہ مُسکراؤ! اُداس لوگو
گُزر رہی ہیں گلی سے پِھر، ماتمی ہوائیں
کِواڑ کھولو، دِئیے بُجھاؤ! اُداس لوگو
جو رات مقتل میں بال کھولے اُتر رہی تھی
کہاں تلک، بام و در چراغاں کیے رکھو گے
بِچھڑنے والوں کو بُھول جاؤ! اُداس لوگو
اُجاڑ جنگل، ڈری فضا، ہانپتی ہوائیں
یہیں کہیں بستیاں بساؤ! اُداس لوگو
یہ کِس نے سہمی ہوئی فضا میں ہمیں پُکارا
یہ کِس نے آواز دی، کہ آؤ! اُداس لوگو
یہ جاں گنوانے کی رُت یونہی رائیگاں نہ جائے
سرِ سِناں، کوئی سَر سجاؤ! اُداس لوگو
اُسی کی باتوں سے ہی طبیعت سنبھل سکے گی
کہیں سے محسنؔ کو ڈُھونڈ لاؤ! اُداس لوگو
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment