یہ زمیں صحیفۂ خاک ہے، یہ فلک صحیفۂ نُور ہے
یہ کلام پڑھ کبھی غور سے، یہاں ذرّہ ذرّہ زبُور ہے
یہاں بَرگ بَرگ ہے اِک نَوا، گُل و یاسمن ہیں سخن سَرا
اِسے حفظ کر، اِسے دل میں رکھ، یہ وَرَق، جو کَشف و ظہُور ہے
یہ جو پَل ہیں قُربِ جمال کے، اِنہیں ڈر سمجھ کے سَمیٹ لے
میں خزاں سے خوف زدہ نہیں، میں ہوا کا دَست نگر نہیں
تبِ موجِ گل مِرے خُوں میں ہے، مِرے دل میں لحنِ طیُّور ہے
وہی جی گئے جو حیات کے خد و خال خُوں سے سجا گئے
اُنہیں موت کا کوئی ڈر نہیں، جِنہیں زندگی کا شعُور ہے
کبھی راحتوں میں بھی رو لئے، کبھی غم سے جی کو رِجھا لِیا
یہاں ہجر و وصل سب ایک ہیں، نہ وہ پاس تھا، نہ وہ دُور ہے
پسِ خَندہ جھانک لِیا نہ ہو، رُخِ گریہ دیکھ لیا نہ ہو
یہ جو حد سے بڑھ کے تپاک ہے، کوئی پردہ اِس میں ضرُور ہے
ضیا جالندھری
No comments:
Post a Comment