Monday, 13 August 2012

اب رفتگاں کی یاد کا کچھ تو پتا بھی دے

اب رفتگاں کی یاد کا کچھ تو پتا بھی دے
اے شام! دُکھ دیا ہے تو پھر حوصلہ بھی دے
چُبھتے ہیں اب تو اشک بھی رہ رہ کے آنکھ میں
موجِ ہوائے شب! یہ چراغاں بُجھا بھی دے
کیا قہر ہے فلک کا ستم بھی زمیں پہ ہو
گرنے لگے فلک تو زمیں آسرا بھی دے
مُجھ کو تو حرفِ حق کی طلب تھی، سو پا لیا
میں نے یہ کب کہا تھا، مُجھے کربلا بھی دے
اب کچھ تو کم ہو دِل زدگاں کی فسُردگی
اے درد! رات ڈھلنے لگی مُسکرا بھی دے
ہر فرد ابتدا کی مسافت میں شل ہُوا
کوئی تو ہو جو اب خبرِ انتہا بھی دے
کب تک ہنسے گی تُجھ پہ یہ محرومیوں کی شام
وہ شخص بے وفا تھا، اُسے اب بھلا بھی دے
محسنؔ سا اہلِ دِل تو دِکھا اپنے شہر میں
محسنؔ تو ہنس کے زخم بھی کھائے، دُعا بھی دے

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment