کچھ اِس طرح وہ گِھری ہوئی تھی سہیلوں میں
گلاب جیسے کِھلا ہوا ہو، چنبیلیوں میں
کوئی کیا سمجھے میں خود بھی اسکو سمجھ نہ پایا
وہ بات کرتی ہے مجھ سے اکثر پہلیوں میں
میں سوچتا ہوں وہ میرے گھر میں رہے گی کیسے
رہی ہو اب تک جو اونچی اونچی حویلیوں میں
خدا نے جانے وہ کِس کے ماتھے پہ لِکھ دیا ہے
جو نام تُو نے لِکھا ہوا ہے، ہتھیلیوں میں
میں غیر کی سازشوں سے قیصر عبث ڈرا تھا
تھے اپنے دشمن چھپے ہوئے، یار بیلیوں میں
گلاب جیسے کِھلا ہوا ہو، چنبیلیوں میں
کوئی کیا سمجھے میں خود بھی اسکو سمجھ نہ پایا
وہ بات کرتی ہے مجھ سے اکثر پہلیوں میں
میں سوچتا ہوں وہ میرے گھر میں رہے گی کیسے
رہی ہو اب تک جو اونچی اونچی حویلیوں میں
خدا نے جانے وہ کِس کے ماتھے پہ لِکھ دیا ہے
جو نام تُو نے لِکھا ہوا ہے، ہتھیلیوں میں
میں غیر کی سازشوں سے قیصر عبث ڈرا تھا
تھے اپنے دشمن چھپے ہوئے، یار بیلیوں میں
زبیر قیصر
No comments:
Post a Comment