پیاس بخشی ہے تو پھر اَجر بھی کُھل کر دینا
اَبر مانگے میری دھرتی تو سمندر دینا
اپنی اوقات سے بڑھنا مجھے گُم کر دے گا
مجھ کو سایہ بھی میرے قد کے برابر دینا
یہ سخاوت میرے شجرے میں لکھی ہے پہلے
دیکھنا ہیں میرے جوہر تو میرے عدل پناہ
حوصلہ مجھ کو، میرے غیر کو لشکر دینا
میرے خالِق میری آنکھوں کو جو نَم رکھتا ہے
اُس کے صحرا کو بھی دریاؤں کے تیور دینا
شہر والو! کبھی اِعزاز جو تقسیم کرو
مُجھ کو شیشے کا لِبادہ، اُسے پتھر دینا
یاد آئے جو میرے بعد سَنورنا اُس کو
اے شبِ ہجر، اُسے چاند کا جھومر دینا
کربِ محسنؔ کی مسافت کے خداوندِ جلیل
خاک زادوں کو سدا بختِ سکندر دینا
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment