ہم کو تو انتظارِ سحر بھی قبُول ہے
لیکن شبِ فراق! ترا کیا اصُول ہے
اے ماہِ نِیم شب! تری رفتار کے نثار
یہ چاندنی نہیں ترے قدموں کی دھُول ہے
کانٹا ہے وہ، کہ جس نے چمن کو لہُو دیا
دیکھا تھا اہلِ دل نے کوئی سروِ نوبہار
دامن اُلجھ گیا تو پکارے “ببُول ہے“
جب معتبر نہیں تھا مرا عشقِ بدگُمان
اب حُسنِ خُود فروش کا رونا فضُول ہے
لُٹ کر سمجھ رہے تھے کہ نادم ہے راہزن
کتنی حسِین، اہل مروّت کی بُھول ہے
قتیل شفائی
No comments:
Post a Comment