Saturday 25 August 2012

زمانہ خوش کہاں ہے سب سے بے نیاز کر کے بھی

زمانہ خُوش کہاں ہے سب سے بے نیاز کر کے بھی
چراغِ جاں کو نذرِ بادِ بے لحاظ کر کے بھی
غُلام گردشوں میں ساری عُمر کاٹ دی گئی
حصولِ جاہ کی روش پہ اعتراض کر کے بھی
خجل ہوئی ہیں قیامتیں، قیامتوں کے زعم میں
مذاق بن کے رہ گئیں ہیں قد دراز کر کے بھی
بس اتنا ہو کہ شغلِ ناؤ نوش، مُستقل رہے
قلم کو سرنِگُوں کیا ہے، سر فراز کر کے بھی
کُچھ اس طرح کے بھی چراغ شہرِ مصلحت میں تھے
بُجھے پڑے ہیں خُود ہوا سے سازباز کر کے بھی
بس ایک قدم پڑا تھا بے محل، سو آج تک
میں دربدر ہوں اہتمامِ رخت و ساز کر کے بھی

افتخار عارف

No comments:

Post a Comment