Friday, 10 August 2012

فضا کا حبس شگوفوں کو باس کیا دے گا

فضا کا حَبس شگُوفوں کو باس کیا دے گا؟
بدن دریدہ، کسی کو لباس کیا دے گا؟
یہ دل کہ قحطِ اَنا سے غریب ٹھہرا ہے
میری زباں کو زرِ التماس کیا دے گا؟
جو دے سکا نہ پہاڑوں کو برف کی چادر
وہ میری بانجھ زمیں کو کپاس کیا دے گا؟
یہ شہر یُوں بھی تو دہشت بھرا نگر ہے یہاں
دلوں کا شور، ہَوا کو ہراس کیا دے گا؟
وہ زخم دے کے مُجھے حوصلہ بھی دیتا ہے
اب اِس سے بڑھ کے طبیعت شناس کیا دے گا؟
جو اپنی ذات سے باہر نہ آ سکا اب تک
وہ پتّھروں کو متاعِ حواس کیا دے گا؟
وہ میرے اشک بُجھائے گا کِس طرح محسنؔ
سمندروں کو وہ صحرا کی پیاس کیا دے گا؟

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment