فضا کا حَبس شگُوفوں کو باس کیا دے گا؟
بدن دریدہ، کسی کو لباس کیا دے گا؟
یہ دل کہ قحطِ اَنا سے غریب ٹھہرا ہے
میری زباں کو زرِ التماس کیا دے گا؟
جو دے سکا نہ پہاڑوں کو برف کی چادر
یہ شہر یُوں بھی تو دہشت بھرا نگر ہے یہاں
دلوں کا شور، ہَوا کو ہراس کیا دے گا؟
وہ زخم دے کے مُجھے حوصلہ بھی دیتا ہے
اب اِس سے بڑھ کے طبیعت شناس کیا دے گا؟
جو اپنی ذات سے باہر نہ آ سکا اب تک
وہ پتّھروں کو متاعِ حواس کیا دے گا؟
وہ میرے اشک بُجھائے گا کِس طرح محسنؔ
سمندروں کو وہ صحرا کی پیاس کیا دے گا؟
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment