Tuesday 21 August 2012

دیکھ ہمارے ماتھے پر یہ دَشت طلب کی دھول میاں

دیکھ ہمارے ماتھے پر، یہ دَشتِ طلب کی دُھول میاں
ہم سے عجب ترا درد کا ناتا، دیکھ ہمیں مت بُھول میاں
اہلِ وفا سے بات نہ کرنا، ہو گا ترا اصُول میاں
ہم کیوں چھوڑیں ان گلیوں کے پھیروں کا معمُول میاں
یُونہی تو نہیں دَشت میں پہنچے، یُونہی تو نہیں جوگ لیا
بستی بستی کانٹے دیکھے، جنگل جنگل پُھول میاں
یہ تو کہو کبھی عشق کیا ہے، جگ میں ہوئے ہو رُسوا کبھی
اس کے سوا ہم کچھ بھی نہ پُوچھیں، باقی بات فضُول میاں
نصب کریں محرابِ تمنّا، دیدہ و دل کو فرش کریں
سُنتے ہیں وہ کُوئے وفا میں آج کریں گے نزُول میاں
سُن تو لیا کسی نار کی خاطر، کاٹا کوہ، نکالی نہر
ایک ذرا سے قِصّے کو، اب دیتے کیوں ہو طُول میاں
کھیلنے دو انہیں عشق کی بازی کھیلیں گے تو سیکھیں گے
قیس کی یا فرہاد کی خاطر، کھولیں کیا اسکول میاں
اب تو ہمیں منظُور ہے یہ بھی شہر سے نِکلیں، رُسوا ہوں
تُجھ کو دیکھا، باتیں کر لیں، محنت ہوئی وصُول میاں
انشاؔ جی کیا عُذر ہے تم کو نقد دل و جاں نذر کرو
رُوپ نگر کے ناکے پر، یہ لگتا ہے محصُول میاں

ابن انشا

No comments:

Post a Comment