Tuesday, 28 August 2012

ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے

ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے
تری بانکی چتون نے چُن چُن کے مارے
نکیلے سجیلے جواں کیسے کیسے
نہ گُل ہیں نہ غُنچے نہ بُوٹے نہ پتّے
ہوئے باغ نذرِ خزاں کیسے کیسے
یہاں درد سے ہاتھ سینے پہ رکھا
وہاں اُن کو گُزرے گُماں کیسے کیسے
ہزاروں برس کی ہے بُڑھیا یہ دُنیا
مگر تاکتی ہے جواں کیسے کیسے
ترے جاں نثاروں کے تیور وہی ہیں
گلے پر ہیں خنجر رواں کیسے کیسے
جوانی کا صدقہ، ذرا آنکھ اُٹھاؤ
تڑپتے ہیں دیکھو جواں کیسے کیسے
خزاں لُوٹ ہی لے گئی باغ سارا
تڑپتے رہے باغباں کیسے کیسے
امیرؔ اب سخن کی بڑی قدر ہو گی
پَھلیں پُھولیں گے نُکتہ داں کیسے کیسے

امیر مینائی

No comments:

Post a Comment