Tuesday 28 August 2012

دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے

دہن پر ہیں ان کے گماں کیسے کیسے
کلام آتے ہیں درمیاں کیسے کیسے
زمینِ چمن، گل کھِلاتی ہے کیا کیا
بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے
تمہارے شہیدوں میں داخل ہوئے ہیں
گُل و لالہ و ارغواں کیسے کیسے
بہار آئی ہے، نشہ میں جھومتے ہیں
مریدانِ پیرِ مغاں کیسے کیسے
تپِ ہجر کی کاہشوں نے کیے ہیں
جدا پوست سے استخواں کیسے کیسے
نہ مڑ کر بھی بے درد قاتل نے دیکھا
تڑپتے رہے، نِیم جاں کیسے کیسے
نہ گورِ سکندر، نہ ہے قبرِ دارا
مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے
بہارِ گلستاں کی ہے آمد آمد
خوش پھِرتے ہیں باغباں کیسے کیسے
دل و دیدۂ اہلِ عالم میں گھر ہے
تمہارے لیے ہیں مکاں کیسے کیسے
توجہ نے تیری، ہمارے مسیحا
توانا کیے ناتواں کیسے کیسے
غم و غُصہ و رنج و اندوہ و حرماں
ہمارے بھی ہیں مہرباں کیسے کیسے
تری کلکِ قدرت کے قربان آنکھیں
دِکھائے ہیں خوشرو جواں کیسے کیسے
کرے جس قدر شکرِ نعمت وہ کم ہے
مزے لوٹتی ہے، زباں کیسے کیسے

خواجہ حیدر علی آتش

No comments:

Post a Comment