ذرا سی دیر میں ہم کیسے کھولتے اس کو
تمام عُمر لگی جُھوٹ بولتے اس کو
جِسے کَشِید کیا تھا، خُمارِ خُوشبو سے
مثالِ رنگ ہواؤں میں گھولتے اس کو
وہ خواب میں ہی اُترتا شُعاعِ صبح کے ساتھ
وہ اشک تھا اسے آنکھوں میں دفن ہونا تھا
گُہر نہ تھا کہ سِتاروں میں رولتے اس کو
وہ بے وفا تھا، تو اِقرار لازمی کرتا
کچھ اور دیر میری جاں! ٹٹولتے اس کو
کِسی کی آنکھ سے محسنؔ ضرور پِیتا ہے
تمام شہر نے دیکھا ہے ڈولتے اس کو
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment