جو سر بھی کشِیدہ ہو اُسے دار کرے ہے
اغیار تو کرتے تھے سو اب یار کرے ہے
وہ کون سِتمگر تھے کہ یاد آنے لگے ہیں
تُو کیسا مسیحا ہے، کہ بیمار کرے ہے
اب روشنی ہوتی ہے کہ گھر جلتا ہے دیکھیں
کیا دل کا بھروسا ہے یہ سنبھلے کہ نہ سنبھلے
کیوں خُود کو پریشاں مِرا غمخوار کرے ہے
ہے ترکِ تعلّق ہی مداوائے غمِ جاں
پر ترکِ تعلّق تو بہت خوار کرے ہے
اس شہر میں ہو جُنبشِ لب کا کسے یارا
یاں جُنبشِ مژگاں بھی گُنہگار کرے ہے
تُو لاکھ فرازؔ اپنی شِکستوں کو چُھپائے
یہ چُپ تو تِرے کرب کا اظہار کرے ہے
احمد فراز
No comments:
Post a Comment