Thursday 23 August 2012

اے غزال شب

اے غزالِ شب

اے غزالِ شب
تیری پیاس کیسے بجھاؤں میں
کہ دکھاؤں میں وہ سراب، جو میری جاں میں ہے
وہ سراب ساحرِ خوف ہے
جو سحر سے شام کے رہگزر میں
فریبِ رہروِ سادہ ہے
وہ سراب زادہ، سراب گر، کہ ہزار صورتِ نو بہ نو
میں قدم قدم پہ ستادہ ہے
وہ جو غالب و ہمہ گیر دشتِ گماں میں ہے
میرے دل میں جیسے یقین بن کے سما گیا
میرے ہست و بُود پہ چھا گیا
اے غزالِ شب
اسی فتنہ کار سے چھپ گئے
میرے دیر و زُود بھی خواب میں
میرے نزد و دور حجاب میں
وہ حجاب کیسے اٹھاؤں میں، جو کشیدہ قالبِ دل میں ہے
کہ میں دیکھ پاؤں درونِ جاں
جہاں خوف و غم کا نشاں نہیں
جہاں یہ سرابِ رواں نہیں
اے غزالِ شب

ن م راشد

No comments:

Post a Comment