Thursday 16 August 2012

دل کس کے تصور میں جانے راتوں کو پرِیشاں ہوتا ہے

دل کِس کے تصوّر میں جانے راتوں کو پرِیشاں ہوتا ہے
یہ حُسنِ طلب کی بات نہیں، ہوتا ہے مِری جاں! ہوتا ہے
ہم تیری سِکھائی منطق سے اپنے کو تو سمجھا لیتے ہیں
اِک خار کھٹکتا رہتا ہے، سینے میں جو پنہاں ہوتا ہے
پِھر اُن کی گلی میں پہنچے گا، پھر سِہو کا سجدہ کر لے گا
اِس دل پہ بھروسا کون کرے، ہر روز مُسلماں ہوتا ہے
وہ درد کہ اُس نے چِھین لیا، وہ درد کہ اُس کی بخشش تھا
تنہائی کی راتوں میں انشاؔ! اب بھی مِرا مہماں ہوتا ہے

ابن انشا

No comments:

Post a Comment