دل کِس کے تصوّر میں جانے راتوں کو پرِیشاں ہوتا ہے
یہ حُسنِ طلب کی بات نہیں، ہوتا ہے مِری جاں! ہوتا ہے
ہم تیری سِکھائی منطق سے اپنے کو تو سمجھا لیتے ہیں
اِک خار کھٹکتا رہتا ہے، سینے میں جو پنہاں ہوتا ہے
پِھر اُن کی گلی میں پہنچے گا، پھر سِہو کا سجدہ کر لے گا
وہ درد کہ اُس نے چِھین لیا، وہ درد کہ اُس کی بخشش تھا
تنہائی کی راتوں میں انشاؔ! اب بھی مِرا مہماں ہوتا ہے
ابن انشا
No comments:
Post a Comment