Saturday 4 August 2012

قربان میں ان کی بخشش کے مقصد بھی زباں پر آیا نہیں

وما ارسلنک الا رحمۃ اللعالمین

قربان میں اُنؐ کی بخشِش کے مقصد بھی زباں پر آیا نہیں
بِن مانگے دیا اور اتنا دیا، دامن میں ہمارے سمایا نہیں
آواز، کَرم دیتا ہی رہا، تھک ہار گئے لینے والے
منگتوں کی ہمیشہ لاج رکھی، محرُوم کوئی لوٹایا نہیں
رحمت کا بھرم بھی تُمؐ سے ہے، شفقت کا بھرم بھی تُمؐ سے ہے
ٹھکرائے ہوئے انساں کو بھی تُمؐ نے تو کبھی ٹھکرایا نہیں
وہ رحمت کیسی رحمت ہے، مفہوم سمجھ لو رحمت کا
اُسکو بھی گلے سے لگایا ہے جسے اپنا کسی نے بنایا نہیں
ایمان مِلا اُنؐ کے صدقے، قرآن مِلا اُنؐ کے صدقے
رحمٰن ملا اُنؐ کے صدقے وہ کیا ہے جو ہم نے پایا نہیں
خُورشیدِ قیامت کی تابش، مانا کہ قیامت ہی ہو گی
ہم اُنؐ کے ہیں گھبرائیں کیوں، کیا ہم پہ نبیؐ کا سایا نہیں
ہمدم ہیں وہی معذُوروں کے غمخوار ہیں سب مجبُوروں کے
سرکارؐ مدینہ نے تنہا کس کس کا بوجھ اُٹھایا نہیں
وہ غارِ حِرا کی خِلوت ہو یا جلوتِ قُرب او ادنٰی
سرکارؐ نے اپنی اُمّت کو رکھا ہے یاد، بھلایا نہیں
اُنؐ کا تو شِعار کریمی ہے، مائل بہ کرم ہی رہتے ہیں
جب یاد کیا ہے صلے علٰی، وہؐ آ ہی گئے، تڑپایا نہیں
اس مُحسنِ اعظمؐ کے یُوں تو خالدؔ پہ ہزاروں اِحساں ہیں
قربان مگر اس اِحساں کے اِحساں بھی کیا تو، جتایا نہیں

خالد محمود خالد
خالد محمود نقشبندی

No comments:

Post a Comment