Thursday, 30 August 2012

یہ دل کا چور کہ اس کی ضرورتیں تھیں بہت

یہ دل کا چور کہ اس کی ضرُورتیں تھیں بہت
وگرنہ ترکِ تعلّق کی صُورتیں تھیں بہت
مِلے تو ٹُوٹ کے روئے نہ کھل کے باتیں کیں
کہ جیسے اب کہ دلوں میں کدُورتیں تھیں بہت
بھلا دیئے ہیں تیرے غم نے دُکھ زمانے کے
خُدا نہیں تھا تو پتّھر کی مُورتیں تھیں بہت
دریدہ پیرہنوں کا خیال کیا آتا؟
امیرِ شہر کی اپنی ضرُورتیں تھیں بہت
فرازؔ! دل کو نگاہوں سے اختلاف رہا
وگرنہ شہر میں ہم شکل صُورتیں تھیں بہت

احمد فراز

No comments:

Post a Comment